Friday, October 30, 2009

Halqa Arbab e Zauq Islamabad



حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کے ایک اجلاس کا منظر، محمد حمید شاہد کی صدارت میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں انور فطرت نے افسانہ جب کہ بشیر حسین ناظم نے غزل پیش کی۔

Sunday, October 25, 2009

Reliving the past


Reliving the past
Reviewed by Jonaid Iqbal
The world still remembers the horrors of 9/11 and the global impact of this tragedy. It altered the structure of society and effected a change in the psychology and behaviour of human beings.


Literary critic and author of six short story collections, Hameed Shahid has closely observed these changes in people’s attitude over the past eight years and written about it in his latest collection of 50 Urdu short stories, Pachas Afsaney.


Dr Tauseef Tabassum’s long essay, which appears as a preface should convince Hameed Shahid that he already has a place among the important short story writers of Pakistan.
curtsy: T


The author has been labelled as a writer who has largely followed in the footsteps of Manto’s technique. Manto was famous for attracting the attention of the readers and exposing his characters’ psychology.


Shahid’s stories make your heart sink with sentimentalism. Consider the story, Marg Zar, included in the collection.


It records the transformation in the subcontinent’s social behaviour after 9/11, even though the story is ostensibly about a soldier’s attachment to his country, and how his death plunges his family in woe and sorrow. The tears that well up in the eyes of the mother cease abruptly. Iftikhar Arif, former chairman, Pakistan Academy of Letters, has called this story as a portrayal of the after-effects of 9/11 on our social structure.


The story Sworg main Suuar (Pigs found in paradise) is replete with references to peanuts, stray dogs and deaths of goats; all these words having found currency in every day lingo after Sept. 11. Thus there are quite a few things to be said in favour of the lingo and similes the writer has used, ‘We often felt the trick of the use of stylistic language throughout the book.’


The prominent short story writer Mansha Yad says that Hameed Shahid has experimented with diction and technique and in this way given something new to Urdu fiction.


— Jonaid Iqbal



Pachas Afsaney
By Muhammad
Hameed Shahid
Selection by
Dr Tauseef Tabassum
Poorab Academy, Islamabad
Rs550
Curtsy : Books & Authors / Dawn 25.10.2009

Thursday, August 6, 2009

فکشن نگار فاروق خالد کی اسلام آباد آمد

ایک تقریب کے بعد تین فکشن نگار دوست ، محمد عاصم بٹ، محمد حمید شاہد اور فاروق خالد اکادمی ادبیات پاکستان ،اسلام آباد میں

Saturday, July 25, 2009

حلقہ ارباب ذوق

جلیل عالی کی زیر صدارت حلقہ ارباب ذوق کا تنقیدی جلسہ ، الیاس بابر اعوان نے افسانہ اور عابد سیال نے غزل تنقید کے لیے پیش کی

Thursday, July 23, 2009

حلقہ ارباب ذوق


حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کے اجلاس کا ایک منظر

ثروت زہرا کے اعزاز میں

معروف شاعرہ ثروت زہرا کے اعزاز میں مقتدرہ قومی زبان ،اسلام آباد ،میں محبوب ظفر کے زاویہ کی ایک تقریب

Saturday, July 11, 2009

”آکسیجن“


حلقہ اربابِ ذوق اسلام آباد
کے زیرِ اہتمام ممتازافسانہ نگار ،صحافی اوردانشور نجم الحسن رضوی کے افسانوں کے تازہ مجموعہ ”آکسیجن“کی تعارفی تقریب اکادمی ادبیاتِ پاکستان (کانفرنس ہال) , 10جولائی 2009 ,صدارت : جناب پروفیسر فتح محمدملک مہمان ِخصوصی :ڈاکٹررشیدامجدمضامین: منشا یاد، محمد حمید شاہد، فریدہ حفیظ

Tuesday, July 7, 2009

حلقہ ارباب ذوق

حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کے اجلاس کا ایک منظر

Saturday, July 4, 2009

نیلوفر اقبال کی میزبانی میں فکشن فورم اسلام آباد کے اجلاس




نیلوفر اقبال کی میزبانی میں فکشن فورم اسلام آباد کے اجلاس۔ صدارت مسعود مفتی نے کی ۔ شرکا میں فتح محمد ملک،کشور ناہید،منشاےاد،آصف فرخی،محمد حمید شاہد، فریدہ حفیظ،شمیم اکرام الحق، بیگم منشاےاد،امجد طفیل،منظر نقوی، مظہر مسعود اور عاصم بٹ نمایاں ہیں۔ اس نشست میں آصف فرخی نے افسانہ سنایا،شرکا نے اس پر بحث کی جب کہ تقرےب کے بعدفتح محمد ملک اور کشور ناہید کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا۔

حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد














حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کے اجلاس کا ایک منظر،
اس اجلاس کی صدارت علی محمد فرشی نے کی ۔ قمر زمان نے پنجابی افسانہ اور حضرت شام نے پنجابی نظم تنقید کے لیے پیش کی

Sunday, June 28, 2009

Indian textbooks include Intazar, Shahid’s stories

Indian textbooks include Intezar, Shahid’s stories

OUR STAFF REPORTER
ISLAMABAD – Ministry of Human Resource Development India has included stories of the eminent Pakistani Writers Intezar Hussain and Hameed Shahid in the textbooks at higher education level.
In the first edition of the “Intakhab Urdu Nasar” (Anthology of Urdu Prose) for the students of Urdu, Intezar Hussain’s story “Badal” and Hameed Shahid’s story “Loth” haven included. Translations of noted writers have also been included in the first edition of the Intakhab whose 24,000 copies have been published so far.
In order to create interest among the students of Urdu Literature Ghalib’s letters, A note of Gandhi on Allama Iqbal’s Poem, Altaf Hussain Hali and Qurratul Ain Haider’s works have been included in the anthology.
Parem Chand, Asmat Chughtai, Kanhiya Lal Kapoor, Sirsyed Ahmed Khan, Deputy Nazir Ahmed, Maulana Abdul Kalam Azad, Shibli Nomani, Lhawaja Hassan Nizami, Krishan Chandar, Rajindar Singh Bedi, Intezar Hussain and Muhammad Hamid Shahid have also been included in the list of eminent Urdu writings/ short stories.
The Delhi- based publications terms Intezar Hussain an acclaimed Urdu short story writer of our times. About Hameed Shahid the anthology says he is a popular modern short story writer, one hailing from the younger lot Urdu short story writers.
Hameed Shahid has used language skillfully to bring home his point of view in his short stories, the publication further says. According to the anthology, Hameed Shahid’s short stories successfully depict modern life and its complexities.
The Nation / City Page /Islamabad/Sunday, June 28, 2009




Saturday, June 27, 2009

Janj June 13 2009

click to read


افسانہ منزل

افسانہ منزل
مقصود الہی شیخ، آصف فرخی،محمد حمید شاہد اور منشایاد(میزبان) افسانہ منزل ،اسلام آباد میں

حلقہ ارباب ذوق, اسلام آباد26.06.2009

حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کے 26 جون 2009 کا ایک منظر ۔ اس اجلاس کی صدارت محمد حمید شاہد نے کی جب کہ تصویر میں منشایاد،سرور کامران ،منظر نقوی اور دوسرے ادیب بھی نمایاں ہیں

Saturday, June 20, 2009

میرے دن گزر رہے ہیں، آصف فرخی

میرے دن گزر رہے ہیں، آصف فرخی کے افسانوں کا تازہ مجموعہ ہے۔ اس کتاب کا تجزیاتی مطالعہ حلقہ ارباب ذوق ،اسلام آباد کے اےک خصوصی اجلاس میں ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت مسعود مفتی نے کی، کشور ناہید ،افتخار عارف،منشایاد، محمد حمید شاہداور امجد طفیل نے افسانوں کاتجزیہ کیا ۔ جب کہ آصف فرخی نے اپنا افسانہ ”ویلنٹائن “ پیش کیا



In the critical analysis session of fiction book “Mere Din Guzar Rahe Hain” of Dr Asif Farrukhi, eminent fiction writers Mansha Yaad, M.Hameed Shahid & Amjad Tufail are presenting their critical essays while Masood Mufti is presiding over the session of Halqa Arbab e Zauq Islamabad. Iftkhar Aarif and Kishwer Naheed; the Chief Guest and other writers are also available on the juncture.

Saturday, June 6, 2009

مچھلیاں شکار کرتی ہیں


امجد طفیل کی کتاب ”مچھلیاں شکار کرتی ہیں “ کے تنقیدی مطالعہ کے حوالہ سے منعقدہ حلقہ ارباب ذوق، اسلام کے اجلاس کی جھلکیاں۔ یہ خصوصی اجلاس معروف افسانہ نگار منشایاد کی صدارت میں منعقد ہوا۔ تنقیدی مضامین پڑھنے والوں میں محمد حمیدشاہد،عابدہ تقی اور عاصم بٹ شامل ہیں

Thursday, May 28, 2009

عاصم بٹ


افسانہ نگار عاصم بٹ کے افسانوں کے مجموعہ کی تقریب اکادمی ابیات پاکستان کے رائیٹرز ہاوس میں حلقہ ارباب ذوق کے زیر اہتمام منعقد ہوئی ۔ صدارت منشاےاد نے کی جب کہ محمد حمید شاہد، ڈاکٹر درویش ،ڈاکٹر نوازش علی ، منظر نقوی اور دےگر احباب نے گفتگو میں حصہ لیا ۔ اس موقع کا ایک منظر

تھوتھن بھنورا


محمد حمیدشاہد حلقہ ارباب ذوق ۔اسلام آباد کے اجلاس منعقدہ رائیٹرز ہاﺅس ،اکادمی ادبیات اسلام آباد میں اپنا افسانہ”تھوتھن بھنورا “ پیش کر رہے ہیں ۔ اس اجلاس کی صدارت حسن عباس رضا نے کی ۔

Wednesday, May 27, 2009

درکنار


معروف شاعر آصف ثاقب کی کتاب”درکنار“ کی تقریب ایبٹ آباد میں منعقد ہوئی ۔ اس موقع پر محمد حمید شاہد حاضرین سے مخاظب ہیں

Monday, May 25, 2009

عالمی اردو کانفرنس


عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر گوپی چند نارنگ، منشایاد اور محمد حمید شاہد

مندر والی گلی

ڈاکٹر انور زاہدی کے افسانوں کے تیسرے مجموعہ مندر والی گلی کی تقریب کے بعد، ڈاکٹر نوازش علی، محمد منشایاد، محمد حمید شاہد،صاحب کتاب، فتح محمد ملک، فہمیدہ ریاض،منظر نقوی،ڈاکٹر سرور کامران اور خالد فتح محمد ، یہ تقریب حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کے زیر اہتمام منعقد ہوئی ۔

حلقہ ارباب ذوق

محمد حمید شاہد کی صدارت میں حلقہ ارباب ذوق ، اسلام آباد کا جلسہ ، منشاےاد، قائم نقوی، اشفاق سلیم مرزا اور منظر نقوی نمایاں ہیں ۔ یہ اجلاس اکادمی ادبیات پاکستان کے رائیٹرز ہاوس میں ۲۲ مئی ۲۰۰۹ کو منعقد ہوا

مخزن ۔۸ کی تقریب


مخزن ۔۸ کی تقریب منعقدہ پریس کلب اسلام آباد میں محمد حمید شاہد، منشایاد،مقصود الہی شیخ،افتخار عارف،غضنفر ہاشمی، فتح محمد ملک اور دےگر شرکاء

Sunday, May 17, 2009

معروف ترقی پسند ادیب پروفیسر قمر رئیس

معروف ترقی پسند ادیب پروفیسر قمر رئیس مختصر علالت کے بعد 29اپریل 2009کو دہلی میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 77سال تھی۔قمر رئیس جولائی 1932ءمیں شاہجہان پور میں پیدا ہوئے۔انہوں نے لکھنو یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کیا اور پھر مسلم یونیورسٹی سے 1959ءمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اسی سال وہ دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں لیکچرر ،پروفیسر اور صدر شعبہ بنے۔انہوں نے دہلی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔وہ ترقی پسند ادیبوں میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اور کم و بیش دودرجن کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ان کا بنیادی کام پریم چند پر تھا۔وہ گذشتہ تین سال سے دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چئیرمین تھے۔پروفیسر قمر رئیس تاشقند میں پانچ سال تک انڈین کلچرل سینٹر کے ڈائرکٹر رہے۔ انہوں نے 18سال تک انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ قمر رئیس ترقی پسندی کے سنہرے دور کی یادگار تھے ۔وہ ترقی پسندی سے وابستگی کے باوجود انتہا پسندی سے ہمیشہ دور رہے اور ترقی پسند افسانوی کے اولین مجموعے ’انگارے‘ پر اعتراض کے ذریعے انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ کیا تھا،جس میں بعض اسلامی روایات پر تنقید ان کے نزدیک قابلِ تائید نہیں تھی۔

Saturday, May 16, 2009

انجمن ترقی پسند مصنفین







انجمن ترقی پسند مصنفین
کی جانب سے چوپال ، ناصر باغ لاہور میں
ایک شام
افسانہ نگار، ناول نگار اور نقاد محمد حمید شاہد کے نام





























































Saturday, March 7, 2009

تنقیدی مطالعہ: سورگ میں سور

حلقہ ارباب ذوق‘ راولپنڈی
محمدحمید شاہدکےافسانے سورگ میں سور کاتنقیدی مطالعہ


ڈاکٹر نوازش علی:افسانے میں استعمال کی گئی علامتوں کو ہی کھولنا شروع کروں تو بات بہت طویل ہو جائے گی۔ افسانے کی علامتوں میں سیاست کو معیشت کے ساتھ جوڑ کر عالمی منظر کو بیان کیا گیا ہے۔ افسانے میں زبان بہت خوب صورت ہے۔ اس میں ایک flow ہے اور کہیں بھی ابہام پیدا نہیں ہوتا ۔ اور یہ ایک بار پڑھنے اور سننے والا افسانہ نہیں ہے ۔ ہر بار پڑھنے سے نئی صورت سامنے آتی ہے ۔ اور اس افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی بھی جملہsituation سے باہر نہیں ہے ۔ بہت خوب صورت افسانہ ہے۔
علی محمد فرشی:کہانی کا تخلیقی فریم مقامی ہے۔ افسانے میں استعمال کی گئی علامتوں کو اگر کھولا جائے تو ہمیں در پیش عصری مسائل کی طرف لے جاتی نظر آتی ہیں۔ کہانی کے سورگ سے ہمارے اپنے سورگ تک جو سفر کیا گیا ہے یہ ہمارے عہد کے المیے کی مکمل علامت بن جاتا ہے۔ گلہ بانی کے حوالے سے کہانی نے اپنی اُٹھان پکڑی ہے ۔ گلہ بانی سے زراعت کی طرف سوسائٹی کے move کرنے سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیںافسانے میں انہیں خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ افسانے میں بیان کی گئی کہانی کو اگر گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد کے حالات کے تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو ہمیں اس میں استعمال کی گئی علامتوں کی معنویت کی ایک اور سطح نظر آئے گی۔ افسانے میں حمید شاہد نے مقامی زبان اور وہ الفاظ جو مقامی لحاظ سے terms کے طور پر بولے جاتے ہیں ان کو استعمال کر کے فضا بندی کی ہے ۔ افسانے کی علامتیں مثلاً سور‘ کتے ‘ بکریاں‘ اپنے مواد اور موضوع کے حوالے سے خوب آئی ہیں ۔ اور جہاں تک بات ہے اسلوب کی تو میں سمجھتا ہوں کہ حمید شاہد اپنی کہانی کے حوالے اپنا الگ اسلوب بناتے ہیں۔
رفعت اقبال:اس افسانے میں جو اسلوب بنا ہے اس کے پیچھے ایک روایت موجود ہے ۔ اس کی ایک مثال مستنصر حسین تارڑ کا ”بہاﺅ“ ہے ۔ افسانے میں ہمارے دیہی ماحول کی خوب صورت عکاسی کی گئی ہے۔
جہانگیر عمران:تارڑ نے ”بہاﺅ “میں بہت قدیم الفاظ استعمال کئے جب کہ اس افسانے میں مقامیت کے حوالے سے برتے گئے الفاظ ہمارے اپنی عہد ہی الفاظ کے ہیں تاہم انہیں علامتی سطح دی گئی ہے ۔ یوں یہ افسانہ ایک سطح پر ستر کی دہائی کے افسانے سے جڑ جاتا ہے ۔ افسانے میں استعمال کی گئی علامتیں مقامی اور عالمی سطح پر منطبق ہوتی ہیں ۔
اصغر عابد:حمید شاہد اپنے اسلوب میں الگ اور اپنی لغت کے حوالے سے ایک انفرادی اساس بناتے ہیں۔ وہ مقامی ماحول سے اسلوب کے عناصر لیتے ہیںاور افسانے میں معاشی‘ معاشرتی ‘تہذیبی اور تمدنی حوالے لاتے ہیں۔ کہانی میں ’بابا‘ کا کردار بہت اہم ہے ۔ یہ تھرڈ ورلڈ کی کہانی ہے اور اس میں علامتوں کے ذریعے بین الاقوامی مسائل کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ اس میں اپنے دکھوں اور خوشیوں کا بیان بھی خوب ہے۔
شعیب خالق:حمید شاہد کے اس افسانے میں مجھے بہت ہانٹ کیا ہے۔ علامت کے استعمال اور content کے حوالے سے بہت خوب صورت افسانہ ہے۔ بکریوں کی بیماریاں بہت خوبی سے آئیں مگر سوروں کی بیماری کا ذکر نہیں ہے ۔
اختر عثمان:حمید شاہد کے ہاں علامتوں سے زیادہ دو طرح کے تمثیلی عناصر نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں کہیں بھی علامت چیستاں نہیں بنتی۔ آج کے فنکار کے پیش نظر اپنا ماضی اور حال دونوں ہوتے ہیں۔ اسی طرح حمید شاہد صرف لوک دانش تک نہیں رہ جاتے بلکہ آج کے مسائل کا بھی بھر پور ادراک رکھتے ہیں۔ افسانے میں بوڑھے کا کردار لوک دانش کا کردار ہے جبکہ علامتوں سے آج کے مسائل کی جھلک دکھائی گئی ہے ۔ حمید شاہد کے افسانوں میں مقامی الفاظ کا استعمال بہت خوب ہے ۔ اس افسانے کی ابتدا‘ اصل میں اس فصل کی کاشت سے ہوتی ہے جو سوروں کی مرغوب غذا ہے۔ افسانے کے کردار اسے خود استعماریت تک لاتے ہیں۔ اس کہانی میں خانہ بدوشی سے شروع ہونے والی زندگی دوبارہ خانہ بدوشی کی طرف پلٹتی دکھائی دیتی ہے ۔یہ ایک grand style کا افسانہ ہے۔ جہاں تک گلوبلائزیشن کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ گلوبلائزیشن کوئی شتر گربگی کی علامت نہیں ہے۔ افسانے میں بابا کی فکر ہمیں آگے چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔
عابد سیال :افسانے کی جو خوبیاں یہاں بیان کی گئی ہیں وہ اس افسانے میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ تاہم حمید شاہد نے افسانے کو خوب صورت الفاظ کا مرقع بنادیا ہے ۔
جلیل عالی:بہت خوب صورت افسانہ ہے ۔ اس میں جانوروں کی بیماریوںکے بیان میں تناسب کا قرینہ موجود ہے ۔ جب exactness زیادہ ہوجاتی ہے تو علامت allegory بن جاتی ہے اور یہ ا فسانہ علامتی سطح پرallegory بن گیا ہے ۔
نصر اللہ نصر:افسانے کی مرکزی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کا انحصار معیشت پر ہے۔ افسانے کی جزیات درست اور بر محل ہیں سوروں‘ کتوں اور بکریوں کا علامتی استعمال مغرب اور مشرق کے حوالے سے آیا ہے۔
داود رضوان:علامت نگاری کی کئی قسمیں ہیں ۔ اس افسانے میں تمثیلی علامت نگاری سے کام لیا گیا ہے ۔ یہاں بکری کی علامت مشرق اور معصومیت کی روایت کو سامنے لاتی ہے۔
ڈاکٹر نوازش علی:بھیڑ ‘بکریاں صدیوں سے ہمارے معاشرے کاحصہ ہیں۔ جب کہ سور ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہیں اس لیے ان کا افسانے میں زیادہ بیان نہیں ہوا ہے ۔ کوئی بھی فن کار اپنی مقامیت سے جڑے بغیر آفاقیت تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس افسانے میں حمید شاہد نے اپنی بنیاد سے وابستہ ہونے کی کو شش کی ہے۔ افسانہ نگار کا ایک کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ہمیں دوسری زبانوں سے آگاہ کرے‘ اس افسانے میں حمید شاہد نے یہ کام بھی بطریق احسن کیا ہے۔ اس افسانے کادوسرے افسانہ نگاروں کے افسانوں سے تقابل نہیں کرنا چاہیے۔

( بشکریہ حلقہ ارباب ذوق‘ راولپنڈی: مورخہ ۴۱ اپریل ۲۰۰۲ئ)

٭٭٭

تنقیدی مطالعہ: سورگ میں سور

تنقیدی مطالعہ:رابطہ‘ اسلام آباد
محمد حمید شاہد کا افسانہ....... سورگ میں سور

ڈاکٹر نوازش علی :”سورگ میں سور میں ساری بات علامتی سطح پر کی گئی تاہم اس کے لیے حمید شاہد نے کہانی کے بیانے کو خوبی سے استعمال کیا ہے ۔اس افسانے کے لیے چکوال کے علاقے کا لینڈ اسکیپ چنا گیا ہے ۔ اس علاقے میں جس طرح مختلف نسلیں آباد رہیں ۔ کاروبار تبدیل ہوتے رہے اسے گرفت میں لیا گیا ہے ۔ یہاں کے بڑوں کا پیشہ بھیڑبکریوں کی پرورش رہا ہے جب کہ نئی نسل اس پیغمبری پیشے سے دور ہوتی دکھائی گئی ہے۔ کاروبار بدلنے سے باہر سے استعماری قوتیں آتی ہیں ‘ساتھ ہی تھوتھنیوں والے بھی آجاتے ہیں۔ گویا جو ہمیں معیشت دے رہے ہیں وہ تھوتھنی والوں کی راہ ہموار کر رہے ہیں اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مقامی استعمار ‘ان کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے ۔ حمید شاہد نے یہ افسانہ انتہائی خوبی سے بنا ہے۔
مسعود مفتی:پہلے اس کا تعین کر لیا جانا چاہیئے کہ افسانہ ”سورگ میں سور“ کس کی علامت ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک پروسس کی علامت ہے ‘ یہ سیاسی علامت بھی ہے ‘ سماجی اور معاشی بھی۔ یہ اس بات کی علامت بھی بنتی ہے کہ پرسکون اور تہذیبی زندگی کو مادی ترجیحات درہم برہم کر رہی ہیں۔ دوسرے اینگل سے دیکھا جائے تو اس میں ایک حقیقت پسند اسلوب بھی سامنے آتا ہے ۔ یہاں ایک ماحول کو مقامی اصطلاحات کے ذریعے بیان کیا گیا ہے ۔ جملوں کی ساخت بہت عمدہ ہے الفاظ کا چناﺅ خوب ہے ۔ افسانہ زمین اور زندگی کے بہت قریب ہے ۔ افسانے میں علامت اور اس کے لیے جو ماحول بنایا گیا ہے میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔
منشایاد:اس افسانے پر تین طرح سے بات ہو سکتی ہے ۔ ماحول جو بنایا گیا ہے ‘ لفظوں کا استعمال ‘ عمدہ زبان اور چیزیں جن کو بیان کیا گیا ہے ۔ تحریر میں بہت flow ہے ۔ بیان بہت خوب صورت ہے اور فکشن کی زبان استعمال کی گئی ہے ۔ ساری صورت حال کو تمثیل بنا کر آخری جملوں میں turn لے کر علامت اور تمثیل کا رنگ دے دیا گیا ہے۔ اس سے سارے معنی سیاسی اور معروضی ہو گئے ہیں۔ یہ بھی کہانی کی دوہری پرت ہے۔ ”سورگ میں سور“ کو ایک تمثیل کے طور پر آج کی صورت حال پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے موضوعات پر ضرور لکھا جانا چاہئے ۔ صرف موضوع ہی نہیں اس کا بیان اور جزئیات بھی بہت اہم ہیں۔
فریدہ حفیظ:عالمی استعمار پر پہلے بھی بہت سے افسانے لکھے گئے ہیںمگر اس کا اسلوب مختلف ہے ۔ اس افسانے کی اٹھان بہت خوب صورت ہے ۔ اس افسانے میں بہت سی پرتیں ہیں اور سب ایک ایک کر کے کھلتی چلی جا تی ہیں۔
مسعود مفتی:”سورگ میں سور“ کے حوالے سے کہوں گا کہ اس جنت کو تباہ سوروں نے نہیں کیا بلکہ اُن لوگوں کے رویوں نے کیا ہے جن کی وجہ سے مادی ترغیبات نے رحمدلی کے جذبے کو معدوم کر دیا ہے ۔
آفتاب اقبال شمیم:”سورگ میں سور“ افسانے کی نثر میں ایک میوزیکل ٹچ ہے خود عنوان ملاحظہ ہو ”سورگ“ اور ”سور“ ۔ حمید شاہد نے ا فسانہ پڑھنا شروع کیا تو یوں لگا وہ پوئیٹری پڑھ رہے ہیں ۔ جیسے انہوں نے جانوروں کے بارے میں لکھا ہے تو اسے تہذیبی حوالے سے دیکھیں۔ ایک pastoral age ہے جو آگے بڑھ کر agricultural امیجری میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ آگے جاکر سوروں کے ذکر سے افسانہ معنوی سطح پر بہت پھیلا دیا گیا ہے۔ اب جہاں کہیں بھی استحصال ہورہا ہے یہ ا فسانہ وہا ں apply ہو جاتا ہے۔
محمود اختر:اس افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں افسانہ نگار کا مشاہدہ بہت deep ہے۔ بکریوں کے بارے میں ‘ بکریوں کی نسلوں کے بارے میں‘ کتوں کے حوالے سے ۔ جانوروں کی بیماریوں کا ذکر ۔ مشاہدہ کمال کا ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ ایک آدمی اتنا قادر ہو کہ دریا کی روانی سے سب کا ذکر کرتا چلا جائے۔
ضیا ءجالندھری:قابیل کے ہاتھوں سے ہابیل کا قتل ہوا تھا۔ ہابیل تہذیب کے اولین حصے سے تعلق رکھتا تھا جب کہ قابیل ایڈوانس تھا ۔ وہ سبزیاں اگانے تک آگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی ۔ ”سورگ میں سور “کا کمال یہ ہے کہ کہ اس میں ایک مقام پر آکر لوگوں کی ہڈیوں میں پانی پڑ گیا ہے۔ جس نے fibring سپرٹ کوkillکر دیا ہے۔ ٹالسٹائی اور داستوئفسکی کے لیے مشہور تھا کہ وہ جس چیز کو پکڑ لیتے تھے تفصیلات تک اور باریکیوں تک لے جاتے تھے۔ اس افسانے میں جس طرح زبان کا استعمال ہوا ہے اور جس طرح جزیات تک آئی ہیں‘ وہاں ہم خود موجود ہو جاتے ہیں ۔ مجھے ابوالفضل صدیقی یاد آگئے۔ اتنا پرسنل اور کلوز مشاہدہ ہے ۔ ان سب باتوں نے مل ملا کر اسے خوب صورت افسانہ بنا دیا ہے۔ بہت کا میاب اور دل آویز افسانہ ہے۔
( بشکریہ رابطہ‘ اسلام آباد : مورخہ ۸۱۔ اپریل ۲۰۰۲ ئ)