Saturday, July 10, 2010

شارجہ میں حلقہ ء ارباب ذوق کی شام افسانہ و غزل










شارجہ میں حلقہ ء ارباب ذوق کی شام افسانہ و غزل

ادبی نشست کا اہتمام ڈاکڑثروت زہرا اور پیر محمد کیلاش نے کیا

ممتاز افسانہ نگار اورنقاد محمد حمید شاہد نےاس ادبی نشست کی صدارت کی

آج کے دورمیں اہل قلم نے سیاست کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا لیا
تحریر صبیحہ صبا

طویل عرصے کے بعد شارجہ میں حلقۂ ارباب ذوق نے شام افسانہ و غزل کا اہتمام کیا۔ممتاز نقاداور افسانہ نگار محمد حمید شاہد اسلام آبادسے شارجہ آئے تو ان کے اعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔شاعر ہ تسنیم عابدی نے اپنا ایک افسانہ تنقید کے لئے پیش کیا۔افسانہ آج کے دور کی سامنے کی ایک تصویر تھی کہ کس طرح غربت کی آگ معصوم انسانوں کو دہشت اور وحشت کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ تسنیم عابدی کی گر فت اپنے موضوع پر مضبوط تھی حاضرین نے ان کے افسانے کو پسند کیا ان کے بعد افسانہ نگار اشرف شاد نے سیاسی موضوع پر اپنا افسانہ تنقید کے لئے پیش کیا افسانہ بے حد طویل تھا ایسی نشستوں میں طویل افسانہ پیش کرنے کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ حاضرین کی توجہ افسانے سے ہٹ جاتی ہے۔اشرف شاد کی کہانی پاکستان کی سیاسست کے بڑے مہروں کے گرد گھومتی ہوئی محسوس ہوئی کچھ لوگوں نے افسانے کو پسند کیا لیکن مجموعی طور پر افسانے کے صحافتی انداز وبیان پر تنقید ہوئی۔محفل میں یہ بتایا گیا کہ صحافی افسانہ نگار پر غالب آگیا۔اشرف شاد اچھے شاعر صحافی اور ادیب ہیں کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔آخر میںصاحب شام نے ایک خوبصورت افسانہ پیش کیا۔جسے سب نے پسند کیا۔پیر محمد کیلاش نے پہلے دورکی نظامت کی جو خودبھی اچھے افسانہ نگار ہیں اور کیلاش کے نام سے افسانے لکھتے رہے ہیں دوسرے دورکی نظامت ڈاکٹر ثروت زہرا نے کی ۔جس تر تیب سے شعرا ء بیٹھے تھے باری باری کلام سناتے رہے۔ افسانوں کے دور کا پھیلاؤ زیادہ تھا ۔ غزل کے اختصار نے اپنا کمال دکھایا۔اور تھوڑے وقت میںبہت سی فکر انگیز شاعری سننے کو ملی صدر محفل محمد حمید شاہد اپنے افسانوں سے مطمئن ہیں تنقید ان کا میدان ہے طویل عرصے سے شاعری چھوڑ چکے ہیں اشرف شاد جلدی میں تھے افسانوی دور تک ان کا ساتھ رہا۔سب سے پہلے ڈاکٹر ثروت زہرا نے اشعار سنائے

تمہاری آس کی چادر سے منہ چھپائے ہوئے
پکارتی ہوئی رسوائیوں میں بیٹھی ہوں
نگاہِ دل میں اگی دھوپ کو بجھاتی ہوئی
تمہارے ہجر کی رعنائیوں میں بیٹھی ہوں
ڈاکٹر کرسٹوفر لی نے اردو اور انگریزی میں شاعری سنا کر داد حاصل کی
سلیمان جازب
وہ ترا غم گسار ہو جانا
دل کا باغ و بہار ہو جانا
آنکھوں آنکھوں میں گفتگو ہونا
خامشی کا پکار ہو جانا
حسین سحر
یوں ہم ان کا آستاں دیکھا کئے
جیسے جنت کا سماں دیکھا کئے
سامنے تھا روضۂ شاہ عرب
حاصلَ عمر رواں دیکھا کئے
شاہ زمان کوثر
ہم وہ درویش صفت لوگ ہیں جن سے ملکر
لوگ بے وجہ محبت بھی تو کر سکتے ہیں
سحرتاب رومانی
بات دل کی تھی دل سے ہو جاتی
بیچ میں تم دماغ لے آئے
صغیراحمد جعفری
اس کی
آنکھ میں نم کب ہوگا
جبر کاموسم کم کب ہوگا
جاہ و حشم کو ٹھوکر ماریں
ہم میں اتنا دم کب ہوگا

امن و چین کی سچی آشا

ہاتھ میں وہ پرچم کب ہوگا
ظہیر بدر ادیب ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف انھوں نے بھی چند اشعار سنائے
تسنیم عابدی
کچھ چاندنی اداس تھی کچھ دل بھی تھا اداس
کل رات کرب ذا ت بھی حد سے سوا ہوا
اب امن کا پیغام بھلا کون سنائے
اک فاختہ زخمی یہاں رستے میں پڑی ہے
صبیحہ صبا
چاہے جتنا طویل ہو جائے
عارضی ہر پڑاؤ ہوتا ہے
کچھ تو رکھنابھرم ضروری ہے
کہ یہی رکھ رکھاؤ ہوتا ہے