Sunday, March 15, 2009

Manto Conference

Manto Hamara HamAsar

Manto

Saturday, March 7, 2009

تنقیدی مطالعہ: سورگ میں سور

حلقہ ارباب ذوق‘ راولپنڈی
محمدحمید شاہدکےافسانے سورگ میں سور کاتنقیدی مطالعہ


ڈاکٹر نوازش علی:افسانے میں استعمال کی گئی علامتوں کو ہی کھولنا شروع کروں تو بات بہت طویل ہو جائے گی۔ افسانے کی علامتوں میں سیاست کو معیشت کے ساتھ جوڑ کر عالمی منظر کو بیان کیا گیا ہے۔ افسانے میں زبان بہت خوب صورت ہے۔ اس میں ایک flow ہے اور کہیں بھی ابہام پیدا نہیں ہوتا ۔ اور یہ ایک بار پڑھنے اور سننے والا افسانہ نہیں ہے ۔ ہر بار پڑھنے سے نئی صورت سامنے آتی ہے ۔ اور اس افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی بھی جملہsituation سے باہر نہیں ہے ۔ بہت خوب صورت افسانہ ہے۔
علی محمد فرشی:کہانی کا تخلیقی فریم مقامی ہے۔ افسانے میں استعمال کی گئی علامتوں کو اگر کھولا جائے تو ہمیں در پیش عصری مسائل کی طرف لے جاتی نظر آتی ہیں۔ کہانی کے سورگ سے ہمارے اپنے سورگ تک جو سفر کیا گیا ہے یہ ہمارے عہد کے المیے کی مکمل علامت بن جاتا ہے۔ گلہ بانی کے حوالے سے کہانی نے اپنی اُٹھان پکڑی ہے ۔ گلہ بانی سے زراعت کی طرف سوسائٹی کے move کرنے سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیںافسانے میں انہیں خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ افسانے میں بیان کی گئی کہانی کو اگر گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد کے حالات کے تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو ہمیں اس میں استعمال کی گئی علامتوں کی معنویت کی ایک اور سطح نظر آئے گی۔ افسانے میں حمید شاہد نے مقامی زبان اور وہ الفاظ جو مقامی لحاظ سے terms کے طور پر بولے جاتے ہیں ان کو استعمال کر کے فضا بندی کی ہے ۔ افسانے کی علامتیں مثلاً سور‘ کتے ‘ بکریاں‘ اپنے مواد اور موضوع کے حوالے سے خوب آئی ہیں ۔ اور جہاں تک بات ہے اسلوب کی تو میں سمجھتا ہوں کہ حمید شاہد اپنی کہانی کے حوالے اپنا الگ اسلوب بناتے ہیں۔
رفعت اقبال:اس افسانے میں جو اسلوب بنا ہے اس کے پیچھے ایک روایت موجود ہے ۔ اس کی ایک مثال مستنصر حسین تارڑ کا ”بہاﺅ“ ہے ۔ افسانے میں ہمارے دیہی ماحول کی خوب صورت عکاسی کی گئی ہے۔
جہانگیر عمران:تارڑ نے ”بہاﺅ “میں بہت قدیم الفاظ استعمال کئے جب کہ اس افسانے میں مقامیت کے حوالے سے برتے گئے الفاظ ہمارے اپنی عہد ہی الفاظ کے ہیں تاہم انہیں علامتی سطح دی گئی ہے ۔ یوں یہ افسانہ ایک سطح پر ستر کی دہائی کے افسانے سے جڑ جاتا ہے ۔ افسانے میں استعمال کی گئی علامتیں مقامی اور عالمی سطح پر منطبق ہوتی ہیں ۔
اصغر عابد:حمید شاہد اپنے اسلوب میں الگ اور اپنی لغت کے حوالے سے ایک انفرادی اساس بناتے ہیں۔ وہ مقامی ماحول سے اسلوب کے عناصر لیتے ہیںاور افسانے میں معاشی‘ معاشرتی ‘تہذیبی اور تمدنی حوالے لاتے ہیں۔ کہانی میں ’بابا‘ کا کردار بہت اہم ہے ۔ یہ تھرڈ ورلڈ کی کہانی ہے اور اس میں علامتوں کے ذریعے بین الاقوامی مسائل کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ اس میں اپنے دکھوں اور خوشیوں کا بیان بھی خوب ہے۔
شعیب خالق:حمید شاہد کے اس افسانے میں مجھے بہت ہانٹ کیا ہے۔ علامت کے استعمال اور content کے حوالے سے بہت خوب صورت افسانہ ہے۔ بکریوں کی بیماریاں بہت خوبی سے آئیں مگر سوروں کی بیماری کا ذکر نہیں ہے ۔
اختر عثمان:حمید شاہد کے ہاں علامتوں سے زیادہ دو طرح کے تمثیلی عناصر نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں کہیں بھی علامت چیستاں نہیں بنتی۔ آج کے فنکار کے پیش نظر اپنا ماضی اور حال دونوں ہوتے ہیں۔ اسی طرح حمید شاہد صرف لوک دانش تک نہیں رہ جاتے بلکہ آج کے مسائل کا بھی بھر پور ادراک رکھتے ہیں۔ افسانے میں بوڑھے کا کردار لوک دانش کا کردار ہے جبکہ علامتوں سے آج کے مسائل کی جھلک دکھائی گئی ہے ۔ حمید شاہد کے افسانوں میں مقامی الفاظ کا استعمال بہت خوب ہے ۔ اس افسانے کی ابتدا‘ اصل میں اس فصل کی کاشت سے ہوتی ہے جو سوروں کی مرغوب غذا ہے۔ افسانے کے کردار اسے خود استعماریت تک لاتے ہیں۔ اس کہانی میں خانہ بدوشی سے شروع ہونے والی زندگی دوبارہ خانہ بدوشی کی طرف پلٹتی دکھائی دیتی ہے ۔یہ ایک grand style کا افسانہ ہے۔ جہاں تک گلوبلائزیشن کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ گلوبلائزیشن کوئی شتر گربگی کی علامت نہیں ہے۔ افسانے میں بابا کی فکر ہمیں آگے چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔
عابد سیال :افسانے کی جو خوبیاں یہاں بیان کی گئی ہیں وہ اس افسانے میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ تاہم حمید شاہد نے افسانے کو خوب صورت الفاظ کا مرقع بنادیا ہے ۔
جلیل عالی:بہت خوب صورت افسانہ ہے ۔ اس میں جانوروں کی بیماریوںکے بیان میں تناسب کا قرینہ موجود ہے ۔ جب exactness زیادہ ہوجاتی ہے تو علامت allegory بن جاتی ہے اور یہ ا فسانہ علامتی سطح پرallegory بن گیا ہے ۔
نصر اللہ نصر:افسانے کی مرکزی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کا انحصار معیشت پر ہے۔ افسانے کی جزیات درست اور بر محل ہیں سوروں‘ کتوں اور بکریوں کا علامتی استعمال مغرب اور مشرق کے حوالے سے آیا ہے۔
داود رضوان:علامت نگاری کی کئی قسمیں ہیں ۔ اس افسانے میں تمثیلی علامت نگاری سے کام لیا گیا ہے ۔ یہاں بکری کی علامت مشرق اور معصومیت کی روایت کو سامنے لاتی ہے۔
ڈاکٹر نوازش علی:بھیڑ ‘بکریاں صدیوں سے ہمارے معاشرے کاحصہ ہیں۔ جب کہ سور ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہیں اس لیے ان کا افسانے میں زیادہ بیان نہیں ہوا ہے ۔ کوئی بھی فن کار اپنی مقامیت سے جڑے بغیر آفاقیت تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس افسانے میں حمید شاہد نے اپنی بنیاد سے وابستہ ہونے کی کو شش کی ہے۔ افسانہ نگار کا ایک کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ہمیں دوسری زبانوں سے آگاہ کرے‘ اس افسانے میں حمید شاہد نے یہ کام بھی بطریق احسن کیا ہے۔ اس افسانے کادوسرے افسانہ نگاروں کے افسانوں سے تقابل نہیں کرنا چاہیے۔

( بشکریہ حلقہ ارباب ذوق‘ راولپنڈی: مورخہ ۴۱ اپریل ۲۰۰۲ئ)

٭٭٭

تنقیدی مطالعہ: سورگ میں سور

تنقیدی مطالعہ:رابطہ‘ اسلام آباد
محمد حمید شاہد کا افسانہ....... سورگ میں سور

ڈاکٹر نوازش علی :”سورگ میں سور میں ساری بات علامتی سطح پر کی گئی تاہم اس کے لیے حمید شاہد نے کہانی کے بیانے کو خوبی سے استعمال کیا ہے ۔اس افسانے کے لیے چکوال کے علاقے کا لینڈ اسکیپ چنا گیا ہے ۔ اس علاقے میں جس طرح مختلف نسلیں آباد رہیں ۔ کاروبار تبدیل ہوتے رہے اسے گرفت میں لیا گیا ہے ۔ یہاں کے بڑوں کا پیشہ بھیڑبکریوں کی پرورش رہا ہے جب کہ نئی نسل اس پیغمبری پیشے سے دور ہوتی دکھائی گئی ہے۔ کاروبار بدلنے سے باہر سے استعماری قوتیں آتی ہیں ‘ساتھ ہی تھوتھنیوں والے بھی آجاتے ہیں۔ گویا جو ہمیں معیشت دے رہے ہیں وہ تھوتھنی والوں کی راہ ہموار کر رہے ہیں اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مقامی استعمار ‘ان کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے ۔ حمید شاہد نے یہ افسانہ انتہائی خوبی سے بنا ہے۔
مسعود مفتی:پہلے اس کا تعین کر لیا جانا چاہیئے کہ افسانہ ”سورگ میں سور“ کس کی علامت ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک پروسس کی علامت ہے ‘ یہ سیاسی علامت بھی ہے ‘ سماجی اور معاشی بھی۔ یہ اس بات کی علامت بھی بنتی ہے کہ پرسکون اور تہذیبی زندگی کو مادی ترجیحات درہم برہم کر رہی ہیں۔ دوسرے اینگل سے دیکھا جائے تو اس میں ایک حقیقت پسند اسلوب بھی سامنے آتا ہے ۔ یہاں ایک ماحول کو مقامی اصطلاحات کے ذریعے بیان کیا گیا ہے ۔ جملوں کی ساخت بہت عمدہ ہے الفاظ کا چناﺅ خوب ہے ۔ افسانہ زمین اور زندگی کے بہت قریب ہے ۔ افسانے میں علامت اور اس کے لیے جو ماحول بنایا گیا ہے میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔
منشایاد:اس افسانے پر تین طرح سے بات ہو سکتی ہے ۔ ماحول جو بنایا گیا ہے ‘ لفظوں کا استعمال ‘ عمدہ زبان اور چیزیں جن کو بیان کیا گیا ہے ۔ تحریر میں بہت flow ہے ۔ بیان بہت خوب صورت ہے اور فکشن کی زبان استعمال کی گئی ہے ۔ ساری صورت حال کو تمثیل بنا کر آخری جملوں میں turn لے کر علامت اور تمثیل کا رنگ دے دیا گیا ہے۔ اس سے سارے معنی سیاسی اور معروضی ہو گئے ہیں۔ یہ بھی کہانی کی دوہری پرت ہے۔ ”سورگ میں سور“ کو ایک تمثیل کے طور پر آج کی صورت حال پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے موضوعات پر ضرور لکھا جانا چاہئے ۔ صرف موضوع ہی نہیں اس کا بیان اور جزئیات بھی بہت اہم ہیں۔
فریدہ حفیظ:عالمی استعمار پر پہلے بھی بہت سے افسانے لکھے گئے ہیںمگر اس کا اسلوب مختلف ہے ۔ اس افسانے کی اٹھان بہت خوب صورت ہے ۔ اس افسانے میں بہت سی پرتیں ہیں اور سب ایک ایک کر کے کھلتی چلی جا تی ہیں۔
مسعود مفتی:”سورگ میں سور“ کے حوالے سے کہوں گا کہ اس جنت کو تباہ سوروں نے نہیں کیا بلکہ اُن لوگوں کے رویوں نے کیا ہے جن کی وجہ سے مادی ترغیبات نے رحمدلی کے جذبے کو معدوم کر دیا ہے ۔
آفتاب اقبال شمیم:”سورگ میں سور“ افسانے کی نثر میں ایک میوزیکل ٹچ ہے خود عنوان ملاحظہ ہو ”سورگ“ اور ”سور“ ۔ حمید شاہد نے ا فسانہ پڑھنا شروع کیا تو یوں لگا وہ پوئیٹری پڑھ رہے ہیں ۔ جیسے انہوں نے جانوروں کے بارے میں لکھا ہے تو اسے تہذیبی حوالے سے دیکھیں۔ ایک pastoral age ہے جو آگے بڑھ کر agricultural امیجری میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ آگے جاکر سوروں کے ذکر سے افسانہ معنوی سطح پر بہت پھیلا دیا گیا ہے۔ اب جہاں کہیں بھی استحصال ہورہا ہے یہ ا فسانہ وہا ں apply ہو جاتا ہے۔
محمود اختر:اس افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں افسانہ نگار کا مشاہدہ بہت deep ہے۔ بکریوں کے بارے میں ‘ بکریوں کی نسلوں کے بارے میں‘ کتوں کے حوالے سے ۔ جانوروں کی بیماریوں کا ذکر ۔ مشاہدہ کمال کا ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ ایک آدمی اتنا قادر ہو کہ دریا کی روانی سے سب کا ذکر کرتا چلا جائے۔
ضیا ءجالندھری:قابیل کے ہاتھوں سے ہابیل کا قتل ہوا تھا۔ ہابیل تہذیب کے اولین حصے سے تعلق رکھتا تھا جب کہ قابیل ایڈوانس تھا ۔ وہ سبزیاں اگانے تک آگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی ۔ ”سورگ میں سور “کا کمال یہ ہے کہ کہ اس میں ایک مقام پر آکر لوگوں کی ہڈیوں میں پانی پڑ گیا ہے۔ جس نے fibring سپرٹ کوkillکر دیا ہے۔ ٹالسٹائی اور داستوئفسکی کے لیے مشہور تھا کہ وہ جس چیز کو پکڑ لیتے تھے تفصیلات تک اور باریکیوں تک لے جاتے تھے۔ اس افسانے میں جس طرح زبان کا استعمال ہوا ہے اور جس طرح جزیات تک آئی ہیں‘ وہاں ہم خود موجود ہو جاتے ہیں ۔ مجھے ابوالفضل صدیقی یاد آگئے۔ اتنا پرسنل اور کلوز مشاہدہ ہے ۔ ان سب باتوں نے مل ملا کر اسے خوب صورت افسانہ بنا دیا ہے۔ بہت کا میاب اور دل آویز افسانہ ہے۔
( بشکریہ رابطہ‘ اسلام آباد : مورخہ ۸۱۔ اپریل ۲۰۰۲ ئ)

مکالمہ : میرا تخلیقی عمل

منیر فیاض
ہم عصر:حلقہ اربابِ ذوق راولپنڈی

(گزشتہ ربع صدی میں شناخت پانے والے افسانہ نگار اور نقاد محمد حمید شاہد کے ساتھ حلقہ اربابِ ذوق راولپنڈی کا خصوصی اجلاس پریس کلب راولپنڈی میں” ہم عصر“ کے عنوان کے تحت منشایاد کی صدارت میں منعقد ہوا۔ ابتدا میںمحمد حمید شاہد نے ”میرا تخلیقی عمل “ کے عنوان سے اپنا مضمون پڑھا ۔ان کی مجموعی کام اور بیان کیے گئے تخلیقی عمل کے حوالے سے درج ذیل مکالمہ ہوا۔ جب کہ شرکاءاجلاس کے اسماءگرامی یہ ہیں ۔ محمد عاصم بٹ، منیر فیاض ، فضل الہی بہار، علی محمد فرشی، عرفان احمد عرفی، نوازش علی، صدیق فنکار‘ مدثرآفریدی، انعام باری، جہانگیر عمران، اخترعثمان ‘عابد خورشید، انوار فطرت، شعیب خالق، سلمان باسط، سعید اختر ملک، عائشہ مسعود، محمد ضیاءالرحمن، عرفان احمد عرفی، الیاس بابر، دانیال طریر، عزیزکاظمی، کامران کاظمی، نسیم عادل، جلیل عالی، اصغرعابد، کرنل شرافت علی، سعد حمید، داﺅدرضوان، انعام الحق،ڈاکٹر سرورکامران، ڈاکٹر اعجازاحمد، سلمان قیصر اورحسین سلمان،)

مکالمہ : میرا تخلیقی عمل

منشایاد(صدر نشست): محمدحمید شا ہد افسانہ نگار ہیں اوران کی نثری نظموںبلکہ نثموں کی ایک کتاب بھی چھپ چکی ہے لیکن وہ کہانی کونثری نظم یانثم بناناپسند نہیںکرتے۔ یوں توان کی شاعر اورافسانہ نگار کے علاوہ بعض اور بھی ادبی حیثیات ہیںجیسے نقاد،تاریخ نگار اور کالم نویس وغیرہ بلکہ ان کی تخلیقی جہات پر اظہرسلیم مجوکہ کی مرتب کردہ ایک پوری کتاب شائع ہوچکی ہے۔اور اس میںشک نہیںکہ وہ زرخیز ذہن اور فعال طبیعت کے تخلیق کارہیں۔ ان کے سوچنے اورلکھنے کی رفتار بہت تیزہے ۔انہیں ملک اور دنیا کے نئے اورعصری معاملات اورمسائل سے پوری آگاہی ہے اوران کی فکر راست ہے ۔وہ ہنگامی اورسامنے کے موضوعات کوبھی کوفکشن بنانے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہیںہے ۔بلکہ اس سے ان کی تحریروں میں واقعیت ،اثرپذیری اورزور پیداہوجاتاہے۔ ان کے افسانوں کے تین مجموعے شا ئع ہو چکے ہیں ‘بند آنکھوں سے پرے ‘جنم جہنم اور اب نیا مجموعہ” مرگ زار“ جسے اکادمی بازیافت نے کراچی سے شائع کیا ہے ۔ میں نے ان کے دوسرے مجموعہ ”جنم جہنم“ کے بارے میں نے کہاتھاکہ حمید شاہد کے فن ِافسانہ نگاری کی اہم خوبی ہے کہ وہ کسی ایک خاص ڈکشن کے اسیر نہیں ہوئے اور صاحبِ اسلوب بننے کی کوشش میں خود کو محدود نہیں کیا ۔صاحبِ اسلوب اور صاحبِ طرز کہلانے کی خواہش نے اچھے اچھوں کو ضائع کر دیا ۔کوئی موضوع یا مواد خواہ کتنا ہی قیمتی ہوتا اگر ان کے پہلے سے بنائے گئے فنی سانچے میں فٹ نہ ہوتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے مگر اپنے اسلوب میں لچک برداشت نہ کرتے۔ انہیں کہانی سے زیادہ اسلوب عزیز ہوتا۔مگر حمیدشاہد کے ہاں ایسا نہیں ہے۔ وہ خیال ،مواد اورموضوع کے ساتھ تکنیک اور اسلوب میں ضرورت کے مطابق تبدیلی پیدا کرلیتے ہیں۔ وہ ہررنگ کی کہانی لکھنے پرقادرہیںان کی کہانیاں زمین سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔اپنی تہذیب ،ثقافت اور اقدار کی خوشبولئے ہوئے اورافسانے کی روایت سے گہرا رشتہ رکھتے ہوئے ۔لیکن تازگی اورندرت کی حامل اورایسی پراثرکہ پڑھ لیں تو پیچھا نہیں چھوڑتیں ۔اندر حلول کرجاتی ہیں۔ خون میں شامل ہو جاتی ہیں۔ میںسمجھتاہوںیہ خوبیاںان کے موجود ہ افسانوںمیںبھی موجود ہیںبلکہ انہوں نے کچھ نئے موضوعات اور تجربات بھی شامل کئے ہیںیاان میںاضافہ کیاہے۔ ہمارے ہاں دفتری زندگی پربہت کم لکھنے والوں نے توجہ دی ۔اس موضوع پرقدرت اللہ شہاب ، منیر احمد شیخ اوروقاربن الٰہی کے بعد حمیدشاہد کی کہانیاںقابل توجہ ہیں۔ مرگ زار میں شامل ان کی کہانی ” ادارہ اور آدمی “اس کی ایک عمدہ اور بھرپور مثا ل ہے ۔موضوعات کی سطح پرانہوں نے بہت سی نئی چیزیں لکھیں۔ وہ کہانی جس پرکتاب کانام رکھاگیا بہت مشکل موضوع تھا اور یہ کہانی نازک ٹریٹمنٹ کاتقاضاکرتی تھی ۔میرے خیال میںیہ کہانی لکھتے ہوئے انہیں بھی خاصی احتیاط اورمشکل کاسامناکرناپڑا ہوگا۔ مگر وہ اپنی بات اورموقف کوتجریدکی دھند سے نکالنے اور بیان کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ا س کہانی کاموضوع جہاداورشہادت جیسا نازک مسئلہ ہے جس کی کچھ عرصہ پہلے تک کچھ اورصورت تھی اب نائن الیون اور عالمی طاقتوں کی مداخلت سے کچھ اورصورت بن گئی ہے۔یہ ایک دہلادینے والی پراثر کہانی ہے ۔اپنے بھائی کی لاش کے ٹکڑے ۔پھراس کتاب میںانہوںنے موت کی اور کئی ایک شکلوں کامطالعہ کیااور اس کے جبر اور انسان کی بے بسی کی مختلف صورتیں دکھائیں ہیں۔ ”موت منڈی میںاکیلی موت کاقصہ“ تومیںنے خود بنتے بھی دیکھی اوراس بات کاشاہدہوں کہ وہ اس کرب اور تکلیف کو ہوبہوگرفت میں لینے میں کامیاب ہوگئے جوکہانی کے جنم گھرمیں ہم سب کوپیش آئی تھی۔ موت کی منڈی کی اصطلاح پنجابی ایکسپریشن ”مویاں دی منڈی‘ ‘ کے قریب اوربہت خیال انگیز ہے ۔اسی طرح ان کی ایک کہانی ”موت کابوسہ“ بھی ایک حقیقی کردار کی کہانی ہے ۔’لوتھ ‘اور’دکھ کیسے مرتاہے‘ یہ سب صدموں او ر دکھوں کی کہانیاں ہیں لیکن آپ ان سب کہانیوں کوکھنگال کردیکھ لیں ان میںاصل نام کہیںنہیںملیں گے۔ یہی وصف ان کہانیوں کوسچی اورحقیقی ہونے کے باوجودفکشن بننے سے نہیںروکتا ۔اگرچہ اس مجموعے میں مختلف ذائقے کی کچھ اور کہانیاں بھی ہیںجیسے ناہنجار،آٹھوں گانٹھ کمیت اوربرشور،تکلے کاگھاو،رکی ہوئی زندگی اورمعزول نسل وغیرہ مگر اس کتاب کی کہانیوں کی زیادہ تعداد موت کے مختلف روپ پیش کرتی ہے۔اسی لئے مصنف کومحسوس ہوا کہ اس بار توکہانیاںاس کاکچاکلیجہ چباکرہی مسکرائیں۔لیکن جس کہانی پریہ مجموعہ اور اس کامصنف بجاطورپرفخرکرسکیںگے وہ ان کی کہانی ”سورگ میںسور“ ہے۔اسکی کئی پرتیں ہیں ۔واقعاتی اورسامنے کی سطح پربھی اس کی ایک بھرپور معنویت موجودہے اوراس میںجس خوبصورتی سے جزیات نگاری کی گئی اور بنجرزمینوں کی ثقافت،معاملات ،بکریوں اوران کی بیماریوں اورروگوں کے بارے میں جوتفصیلات دی گئی ہیں وہ ان کے وسیع تجربے ،مشاہدے اورمعلومات کا بین ثبوت ہیں ۔پھرجس طریقے سے یہ کہانی ایک علامتی موڑ مڑتی او رسیاسی جبرکی ایک نئی معنویت سے ہمکنارہوجاتی ہے وہ ان کے فن کاکمال ہے۔انہوں نے اس کتاب میںتکنیک اور اسلوب کے کئی ایک نئے تجربات بھی کئے ہیں۔ جیسے راوی اورمتکلم کو ایک دوسرے سے ا لگ کرتے ہوئے کہانی کوروک کر کئی ایک جگہوںپر وضاحتی نوٹس کااضافہ کرنا۔میںسمجھتاہوں کہ افسانے کی نئی اور موجودہ نسل میں حمیدشاہد کانام اورمقام بہت ہی معتبرہے اور ’مرگ زار‘ کے افسانے اس کی بہترین اورخوبصورت مثال ہےں۔ اب میں حمید شاہد کے مجموعی کام اور انہوں نے اپنے تخلیقی عمل کی صورت گری کی ہے آپ کو سوالات کی دعوت دیتا ہوں ۔
علی محمد فرشی: حمید شاہد نے اپنے تخلیقی عمل کے حوالے سے بہت اہم اور خوبصورت تحریر پڑھی ۔ یوں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اکہتر میں پاکستان ٹوٹنے کا سانحہ انہیں اندر کے تخلیقی انسان سے متعارف کرا گیا تھا ۔ اِس حادثے کے بعد جو شاک اُنہیں لگا اِس سے ایک تخلیق کار بیدا رہوا۔ حمید شاہد ایک بیدار مغز، روشن خیال، محنتی اور مثبت فکر کے افسانہ نگار ہیں اُنہوں نے مختلف جہتوں میں کام کیاتاہم ان کے تخلیقی وجود کی دریافت افسانے میں ہوتی ہے۔ اُن کی دوسری پہچان ایک نقاد کی ہے ۔ اُن کی نثموں میںبھی بہت سارے امکانات موجود تھے۔ اگرچہ اب وہ نثم نگاری کی طرف متوجہ نہیں ہیں تاہم جو انہوں نے لکھیں انہوں نے متوجہ ضرور کیا۔افسانوں کے مجموعے” مرگ زار“ تک آتے آتے انہوں نے اپنے اسلوب کا ایک واضح شناخت نامہ مرتب کرلیا ہے ۔ حمید شاہد کے افسانوں میں زبان کے دودھارے ملتے ہیں۔ ایک سادہ زبان کا اور دوسرا مرصع بلکہ اسے دبیز ادبی زباں کہنا چاہیے ‘کا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ان کے ہاں زباں کا اس طرح کا استعمال کیا کسی تخلیقی ضرورت کے لیے آیا ہے ؟ کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ آسان زبان کو اختیار کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ مستقبل کی کہانی آسان زبان میں ہوگی۔
محمد حمید شاہد : آپ درست کہتے ہیں کہ آسان زبان مستقبل کی کہانی کی زبان ہوگی ۔ مگر کتنی آسان اور کیسی آسان ۔ تخلیقی معیار پر پورا اترنے والی زبان کبھی اکہری نہیں ہوتی اور جب سطریں سپاٹ نہیں ہوں گی تووہ ایک عام قاری پوری طرح کیسے کھلیں گی ۔ میرے تخلیقی عمل میں زبان بنیادی کردار ادا کرتی ہے میں نے افسانوں میں اس کے استعمال سے زماں ومکاںکا تعین کیا ہے اور کرداروں کی صورتیں بھی اسی سے بنائی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے مجھے کوئی اضافی عبارت نہیں لکھنا پڑی یہ سب کہانی کے بہاﺅ سے برامد ہوتا رہا ہے ۔ معاملہ یہ ہے کہ میری ہاں کہانی کا تصور اپنی زبان اور ٹریٹمنٹ ساتھ لے کر آتا ہے ۔
جلیل عالی : آپ نے لفظ کوایک زندہ اور مہذب انسانی وجود کی طرح بتاتے ہوئے تخلیقی عمل کو جسم کے ساتھ نفس یا روح کے ساتھ جڑنے کی بات کی ہے ۔ یوں آپ مابعد الطبعیات کی بات بھی کرتے ہیں فکری اسلوب کے حوالے سے اسی نظریاتی اساس پرجو اجتماعی رنگ بنتا ہے آ پ اسے کس طر ح دیکھتے ہیں؟
محمد حمید شاہد :تخلیق کے دورانئے میں فرد کا ذاتی جوہر مقدم رہتا ہے اس کارزار میں وہ اکیلا ہی اتریا ہوتا ہے ۔فرد کی فکری اساس سوچنے سمجھنے کی راہ تو متعین کر سکتی ہے مگر تخلیقی عمل شروع ہونے پر جو راستہ اختیار کرتا ہے اس میں باقی چیزیں اور خارجی سہارے پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ ایسے میں کوئی تحریک‘ کوئی نعرے لگانے والا ‘کوئی طے شدہ راستہ ساتھ نہیں ہوتا۔ اگر ایسے میں اپنے اندر بپا تخلیقی عمل سے وفادار ہونے کی بجائے دوسروں کے ساتھ نعرے لگانے کا راستہ اختیار کیا جائے تو تخلیق کے نفیس اور پراسرار عمل میں رخنے پڑنے لگتے ہیں۔ تحریکوں سے ہم پہلے بھی بہت نقصان اٹھا چکے ہیں ۔ تاہم ایسی تحریکوں میں بھی باصلاحیت لکھنے والے جب جب تخلیقی عمل کی پراسراریت سے جڑے ہیں متوجہ کرتے گئے ہیں ۔ تحریکیں اپنے عروج کے زمانے میں لکھنے والوں کے لیے ایک راہ متعین کردیتی ہے ۔ ایسا کرنے سے نقصان ہوتا ہے کہ بہت کچھ فیشن کے طور پر لکھا جانے لگتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ لکھنے والے کی اپنی فکر ہونی چاہئے ضرور ہونی چاہئے اس کے ہم فکر لوگوں سے ربط ضبط بھی ہونا چاہیئے مگر فن پارہ تخلیق کرتے ہوئے اسے اکیلا ہی ہونا چاہیے۔
جلیل عا لی: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ تحریکوں میں لکھنے والے صرف Visionکو Shareکے لیے افسانہ لکھتے تھے کیاعلامت یا تجرید میں لکھنے والوں کے اپنے Genuine Problem نہیں تھے؟
محمد حمید شاہد : مجھے پھر کہنے دیجئے کہ مجھے تحریکیوں سے کوئی کد نہیں ہے۔ مگر تحریکوں سے وابستہ ہوکر اور ان کے تقاضوں کے تحت لکھنے سے بہت سا کچرا آجاتا ہے۔ اس کچرے کے ڈھیر کے اندر سے Genuine تخلیقات کو الگ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔ میں علامت یا تجرید کو بُرا نہیں کہتا مگر علامت اور تجریدکے نام پر جتنا کچھ لکھاجاتا رہاہے ۔اُس نے خود علامتی اور تجریدی افسانے کو کتنا نقصان پہنچایا اس سے آپ بخوبی آگاہ ہیں ۔
جلیل عا لی:کیا Genuine ترقی پسندی اورتجریدیت تخلیقی ساخت سے نہیں نکلتی اور کیا آپ کے دل میں اِس کے لیے Soft Corner ہے؟
محمد حمید شاہد : شرط Genuine کی ہے اور یہ کڑی شرط ہے ۔ میں نے ان دونوں سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ میں نے علامت کو برتا ہے ۔ میں نے ان موضوعات پر لکھا ہے جو ترقی پسندوں کو مرغوب تھے یہ اس کا ثبوت سے کہ میرے دل میں ان کے لیےSoft Corner ہے مگر میرا نقطہءنظریہ ہے کہ تخلیقیت میں گروہی منصوبہ بندی نقصان دہ ہوتی ہے ۔ تخلیقی عمل کے دوران موحد ہونا پڑتا ہے کہانی کو بھی اور تخلیق کار کو بھی۔
ڈاکٹر نوازش علی: آپ نے تخلیقی عمل کے دوران تخلیق کار وںکو تنہا جزیرے کے طور پر دکھایا ہے جبکہ وہ اردگرد کے لکھنے والوں سے تخلیقی تجربے کو شیئر کرتے ہیں ۔ کیا آپ نے اثرات قبول نہیں کیے اپنے عہد سے پہلے کے لکھنے والوں سے ۔ مثلا یہ جو منشایاد ہیں ان سے ‘اور دوسروں سے ؟
محمد حمید شاہد : میں نے کوشش کی ہے کہ جیسا کسی اور نے لکھاہے میں ویسانہ لکھوں۔ آپ نے منشایاد کی بات کی تو میں سمجھتا ہوں انہوں نے بہت خوبی سے لکھا ہے۔ کہانی لکھتے ہوئے تخلیقی عمل سے جس اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے وہ منشایاد کے پاس ہے ۔ان کے ہاں کیا خوب زبان استعمال ہوتی ہے ‘ پانی میں گھرا پانی ‘ تماشا‘ سزا اور بڑھا دی جائے اور اس طرح کے بڑے افسانے انہوں نے لکھے ہیں ۔انہیں زندہ جملہ لکھنا آتا ہے مگر میں منشایاد ہوں یا منٹو‘ بیدی ہوں یا غلام عباس یا پھر کوئی اور ان جیسا نہیں لکھنا چاہتا میرا اپنا تخلیقی تجربہ میری راہ متعین کی ہے اور یہ خرابی یا خلش میرے اندر ہے کہ مجھے سب سے بچ نکلنا ہے ۔ تمام اچھے افسانہ نگاروں کے مجھ پر اثرات ضرور ہوں گے کہ میں روایت کے ساتھ جڑا ہوا آدمی ہوں۔ جڑا ہوا بھی ہوں اور اس سے کٹتا رہتا بھی ہوں تاہم لکھتے ہوئے میں تنہاہوجاتا ہوں ۔ اور میں اچھے تخلیق کارکے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ ممکن حد تک دوسروں کے اثرات سے بچے اور ذاتی جوہر کو اپنی کارکردگی دکھانے دے ۔
عرفان احمدعُرفی : آپ نے ابتدائیے میں جس سقوط ڈھاکہ والی رات کے حادثے کو اپنے اندر ایک تخلیق کار کی شناخت طور پر دریافت کیا ہے۔ یہ تو ایک خارج میں ہونے والی واردات تھی اور اجتماعی بھی جبکہ آپ کے افسانوں میں انفرادی بنیاد کے افسانے زیادہ ہیں جن میں اندرونی نفسیات کوباریکی سے بیان کیاگیاہے۔
محمد حمید شاہد : میں سمجھتا ہوں کہانی باہرہی سے تحریک لیتی ہے تاہم اس کا پراسرار اندر ہی اندر اپنا عمل دکھاتا رہتا ہے اور جب وہ مکمل ہوتی ہے تو خارجی محرک بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔ جس حادثے کا میں نے ذکر کیا ہے وہ ایک بڑا قومی سانحہ تھا مگر اُس کے مجھ پر براہ راست اثرات مرتب نہیں ہو رہے تھے۔ میں تو چھوٹا تھا مگر گھر کے بڑے افراد اس کے ساتھ جس شدت سے جڑے ہوئے تھے وہ میرے اندر براہ راست منتقل ہورہا تھا۔ جہاں تک نفسیاتی جزیات نگاری کی بات ہے تو یہ میرے افسانے میں شروع سے موجود ہے کیونکہ میں جب کہانی کے کرداروں کے بہت قریب ہو جاتا ہوں تو مجھے ان کی ایک ایک جنبش نظر آنے لگتی ہے اور وہ بھی جو ان کرداروں کے دلوں میں ہوتا ہے ۔
ڈاکٹر نوازش علی : 1971 کے واقعے کو آپ نے ایک قومی سانحے کے طور پر دیکھا اور ادھر والوں کے لیے یہ آزادی کا دن تھا۔ اب آپ اس بارے میںکیا محسوس کرتے ہیں کیا اب بھی آپ ویسا ہی محسوس کرتے ہیں جیسا پاکستان ٹوٹتے وقت محسوس کیا تھا؟
محمد حمید شاہد : اس سانحے کو قیام پاکستان سے جوڑ کر دیکھیں تو کیا یہ اب بھی سانحہ نہیں لگتا میں تو اب تک اس سانحے سے نہیں سنبھل پایا ہوں ۔ ہمیں اس حال تک پہنچانے والا اندرونی اور بیرونی استعمار میری کہانیوں میں میری نفرت کا نشانہ بنتا رہا ہے ۔
ڈاکٹر نوازش علی : جیسے سورگ میں سور اور دوسرے افسانے
محمد حمید شاہد : جی اس سانحے کے ذمہ دار لوگ اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہمیں یرغمال بنائے ہوئے ہیں یوں یہ دکھ پہلے سے کہیں شدید ہو گیا ہے ۔
ڈاکٹر سرور کامران : تجرید اور علامت وقت کی ضرورت کے تحت افسانے میں آئی ہمیں سارا ملبہ ادیب پر ڈال کر الگ نہیں ہونا چاہیے کہ اُسے لکھنا ہی ایسا چاہیے جو عام قاری کی فہم کے مطابق ہو۔
محمد حمید شاہد : لکھنے والے کو سب کے لیے نہیں لکھنا چاہیے ۔ میں آپ سے متفق ہوں تاہم ہر ادیب کے اپنے مخصوص قاری ہوتے ہیں ۔میرامقصود کبھی بھی عام قاری نہیں رہا ۔ تاہم تجرید اور علامت کے بارے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسے تخلیقی تجربے کے اندر سے برآمد ہونا چاہیے۔الگ سے اس کی پیوند کاری نہیں ہونی چاہئے۔
داﺅدرضوان : آپ‘ جہاں تخلیقی عمل رُکتا ہے وہاں اُسے enhance کرنے کے لیے تنقید لکھتے ہیں اور اس میں بھی زیادہ زور جملہ بازی پر ہوتا ہے تاہم آخری جملوں میں مفہوم کسی حد تک اپنے معنی پہنچا تا ہے۔ آپ کے افسانوں میں بھی یہ بات نظر آ تی ہے لیکن مرگ زار تک آتے آتے جملہ بازی اور جملہ سازی کا یہ عمل تخلیقی جملے تک آ پہنچا ہے جبکہ تنقید میں ایسا نہیں ہوا۔ آپ اس عمل کواپنے تخلیقی عمل کے تناظر میں کیسے دیکھتے ہیں؟
محمد حمید شاہد : تنقید ہو یا افسانہ ‘دونوں جملوں کے محتاج ہیں ایک صورتحال سے دوسری میں شفٹ کرتے وقت جملہ ساتھ ہوتا ہے اور جملہ ہی ساتھ دیتا ہے
داﺅدرضوان: جملہ سازی اور جملے کی کاٹ تخلیقی عمل کو کس طرح enhaunce کرتی ہے؟
محمد حمید شاہد : کہانی لکھتے ہوئے محض ایک جملہ پوری صورت حال کو بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ وقت کا بعد دکھانے کے لیے میں نے زبان کو Tool کے طور پر استعمال کیا ہے میں صورتحال میں Live کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاہم کہانی کو چند صفحات میں جہاں اپنی Pace کو بڑھانا ہوتا ہے وہاں میں تفصیل نگاری سے بچنے کے لیے جملے کی ساخت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہوں ۔ جب کسی بات پر سے تیزی میں گزرنا ہو تو جملے چھوٹے ہو جاتے ہیں اور جہاں جہاں سے ٹھہر ٹھہر کر گزرنا ہو وہاں جملے بھی طویل ہو جاتے ہیں ۔ باقی رہ گئی تنقید میں جملہ بازی کی بات تو یہ بعض اوقات ضروری ہو جاتا ہے ۔ لکھتے ہوئے مجھے ایسے جملے سوجھتے رہتے ہیں جو مجھے تفضیل نگاری سے بچا لیتے ہیں ۔
اختر عثمان : فکشن لکھنے والے کی عملی تنقید باقی اصناف کے لکھنے والوں کی تنقید سے کس طرح مختلف ہوتی ہے اورفکشن کی انتقادیات کی اصطلاحات ابھی تک واضح نہیں ہیں اِس سلسلے میں آپ نے کیا کوشش کی ہے؟
محمد حمید شاہد : مختلف اصناف سے متعلق تخلیق کاروں کا تنقیدی رویہ بھی مختلف ہوتا ہے ۔ فکشن لکھنے والا جب کسی دوسرے میدان میں جاتا ہے تو فکشن کے تجربے کو ساتھ لے کر جاتا ہے یوں تنقید لکھتے ہوئے ہر تخلیق کار محض تنقید لکھنے والوں سے الگ ہو جاتا ہے ۔ تخلیق کار کو اپنے تخلیقی تجربے سے وابستہ رہ کر ہی بات کرنی چاہیے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ تنقید لکھتے ہوئے فکشن میرے ساتھ رہتی ہے ۔ میرےTools فکشن کے ہیں اور فکشن ہی کے زائدہ ہیں ۔
جلیل عالی: آپ نے ایک ناول شروع کیا تھا۔ اُس سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے اور کیا ابھی تک آپ اس کی تخلیقی فضا کی گرفت میں ہیں ؟
محمد حمید شاہد : امید کہ جلد ہی وہ ناول بھی منظرِ عام پر آ جائے گا میں سحسوس کرتا ہوں کہ میں اس کی تخلیقی گرفت میں ہوں۔
عاصم بٹ: آپ تنقید میں تاثر کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیا ایسا کرکے آپ اُس کی علمی ذمہ داری کو نظرانداز نہیں کرتے جو تنقید کے متعین اصولوں کی پاسداری میں لازم ٹھہرتی ہے ؟
محمد حمید شاہد : میں ایسا نہیں سمجھتا ۔ پھر تنقید کے کون سے ضوابط ہیں جن کی پاسداری سے تخلیقی عمل کی تفہیم ممکن ہے ۔ تخلیق کے باہر موجود علوم اور فنون کے علاوہ تنقیدی ضابطوں سے کہیں اہم یہ ہوتا ہے کہ اسے تخلیق کے اندر سے پھوٹتے تاثر اور جمالیاتی وصف کی بنیادی اکائیوں سے پرکھا جائے تاہم ان سب سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ میں تخلیقی عمل کے بیان اور فن کی تنقید میں اپنی کہانی کو معاون پاتا ہوں ۔ ویسے بھی جب میں افسانہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تو تنقید میری مدد کو پہنچتی ہے ایسے میں کہانی مکر مار کر رہے رہتی میرے ساتھ ہے۔
عا صم بٹ: سوال یہ ہے کہ کیا فکشن کے ٹولز تنقید میں کار گر ہیں؟
محمد حمید شاہد : میرا آپ سے سوال ہے کہ تنقیدکی مبادیات اور ٹولز کیا ہیں ۔ ہمارے ہاں بہت سے ٹولز باہر سے لے لیے جاتے ہیں ‘انہیں اصناف کے اندر سے لینے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تخلیق کار تخلیقی ٹولز سے تخلیقات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔ اب رہے فکشن کے ٹولز اور تنقیدی عمل تو میں یہ پوچھتا ہوں کہ اگر لسانیات کے ٹولز تنقید میں استعمال ہو سکتے ہیں تو فکشن کے ٹولز کیوں نہیں استعمال ہو سکتے ۔ اگر تخلیق کار لکھتا ہے تو اس میں تخلیقی تنقیدلکھنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے ۔
علی محمد فرشی: فنکار کے مدنظر کچھ پیرا ڈائمز ہوتے ہیں جن سے وہ محبت بھی کرتا ہے ۔ آپ کے سامنے کونسے پیرا ڈائمز ہیں جنہوںنے آپ کے لیے لائٹ ہاﺅس کا کام دیا ؟
محمد حمید شاہد : میں کہانی کی طرف محض افسانہ نگار کہلوانے کے لیے نہیں آیا اگر ایسا ہوتا تو میں اس راہ کے ستارے نظر میں رکھ کر اپنا سفر آغاز کرتا اور آگے بڑھتا ۔ میں پہلے دوسری اصناف کی طرف متوجہ رہا ہوں ۔ اپنے تخلیقی اظہار کے لیے افسانے تک آتے آتے وہ جو دوسروں کو ماڈل بناکر سفر اختیار کرنے والا دورانیہ ہوتا ہے ‘وہ گزر چکا تھا ۔ اب میں اس تلاش میں تھا کہ مجھے جو کہنا ہے وہ کیسے کہا جائے ۔ ایسے میں ممکن ہے اوروں کے اثرات بھی لاشعوری طور پر میرے ہاں ظاہر ہوئے ہوئے ہوں مگر میں نے شعوری طور پر سب سے بچنے اور اپنے تخلیقی تجربے سے وفاداری کو ترجیح دی ہے ۔
ڈاکٹر سرورکامران: دوسرے لکھنے والوں سے متاثر ہونا ارتقاکے Process کا حصہ ہے؟
محمد حمید شاہد : جی آپ نے درست کہا مگر میں نے کہا نا کہ میں بہت نے ساری چیزوں کے بعد افسانے کو اپنے لیے بطور تخلیقی اظہار کی صنف منتخب کیا ہے اِس لیے اِس میں کسی اور کے تبتع کی گنجائش بہت کم نکلتی ہے۔
اصغر عابد : آپ نے ازدواجی زندگی اور عورت کے نفسیاتی مسائل پر کا فی کہانیاں لکھیں ہیں مثلا منجھلی‘ جو ایک لے پالک بیٹی کے حوالے سے ہے ‘ رکی ہوئی زندگی‘ جس میں باہر کی عورت اور گھر کی عورت کا تقابل ہے ‘ آٹھوں گانٹھ کمیت اور نئی الیکٹرا وغیرہ۔ یہ موضوع آپ کے ہاں کیسے آیا؟
منشایاد: لکھنے والا اردگرد سے موضوع لیتا رہتا ہے اور کہانیاں سچی زندگی کی آئینہ دار ہوتی ہیں لہذا ایسے موضوعات کا آجانا ایک قدرتی امر ہے یہ تو کوئی سوال نہ ہوا۔
محمد حمید شاہد : یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جن قبیل کی کہانیوں میں نئی الیکٹرا کو سوال میں بیان کیا گیا ہے وہ ویسی نہیں ۔ نئی الیکٹرا تو متھ اور کلاسیک سے پھوٹی ہے میں نے لمحہ موجودکے جبر سے پناہ کے لیے اس کہانی کی اوٹ لی اور یوں متھ ری کریٹ ہو گئی ۔
اختر عثمان : آپ کی latest کتاب میں روزنامچہ، سفرنامہ اور رپور تاژ کے اجزاءآمیز ہوئے ملتے ہیں۔ یہ اجزاءکس صورت کے تحت افسانے کا حصہ بنے ہیں؟
محمد حمید شاہد : میں ہئتیوں کے جبر کا قائل نہیں ہوں۔ تخلیقی رو کی آزادی پر ایمان رکھتا ہوں ۔تخلیقی تجربہ اپنے لیے خود گنجائشیں پیدا کرتا رہتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس کے لیے کچھ حدوں کو توڑنا پڑتا ہے یہ تجربے میں نے پہلے بھی کیے ہیں ۔ کہانی میرے ہاں بعینہ اس راستے سے نہیں آتی جو روایت نے اس کی لیے مختص کر رکھا ہوتا ہے ۔
انعام الحق : آپ مختلف اصناف سے ہوتے ہوئے افسانے کی طرف آئے ہیں اگر آپ افسانے سے مطمئن ہیں تو اس کی کون سی ایسی صفات ہیں جو آپ کو ایسا سوچنے پر مجبور کرتی ہیں؟
محمد حمید شاہد : میں کہانی کی رمزیہ وصف سے بہت متاثر ہوں۔ جن مسائل اور تجربوں کو بیان کرنے میں باقی اصناف ساتھ چھوڑ جاتی ہیں وہاں افسانہ لپک کر آتا ہے اور ساتھ دیتا ہے۔یہاں آپ بہت سے Complexed مسائل کو ایک مہین تخلیقی پردے میں کہہ جاتے ہیں۔
دانیال طریر: دیکھا گیا ہے کہ ایک دو کتابوں کے بعد ادیب ترقی کے بجائے زوال کا شکار ہوجاتا ہے کیا یہ عمل لاشعوری ہے اگرایسا ہے تو آپ نے اسے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟
محمد حمید شاہد : مستقبل کی پیشن گوئی تو کوئی نہیں کر سکتا۔ تاہم بنیادی سوال یہ بنتا ہے کہ آپ لکھنے کی طرف کیوں آئے ۔ افسانہ نگار ‘ادیب یا شاعر کہلوانے کے لیے یا پھر اپنے تخلیقی وجود کے اظہار کے لیے ۔ جہاں دوسری صورت ہوتی ہے وہاں پسپائی نہیں ہوتی ۔ میں اپنے اندر جو تخلیقی آگ بھڑکی ہوئی محسوس کرتا ہوں ‘مجھے ایسا نہیں لگتا کہ یہ جلد سرد نہیں ہوگی۔
حسن نقوی: کسی سانحے کے دورانیے کی Length اُس کی Form کو متشکل کرنے میں کس طرح مدد کرتی ہے آپ نے افسانہ ”سورگ میں سور“ کے لیے ناول کی Formکا انتخاب کیوں نہیں کیا؟
محمد حمید شاہد : یہ کہانی مجھے افسانے کی صورت میں ہی سوجھی تھی لہذا افسانہ لکھ دیا ۔ اُس میں ایک تہذیبی زوال کو دکھا نا تھا‘ معاشی اور سیاسی سطح کے زوال کو بھی اور یہ تجربہ Compect ہو کر ایک افسانے میں پوری طرح سماگیا تھا لہذا ناول کے لیے پھیلانا مجھے مناسب نہ لگا ۔ ناول اپنا مواد اور پھیلاﺅ خود لے کر آتا ہے وہ پوری زندگی کی طرح پھیلا ہوا ہوتا ہے ۔ اور میرا خیال ہے کہ کہانی تخلیقی مرحلے کے عین آغاز میں اپنی فارم خود ہی منتخب کر لیتی ہے ۔
مدثر آفریدی: آپ نے افسانے میں خود کو بہت Involve کیا ہے کیا ایسا کرنے سے اپنے آپ کو restrict نہیں کیا۔ آپ کے افسانے میں ہم نے نقاد کو بھی دیکھا ہے۔
محمد حمید شاہد : میں نے واحد متکلم میں بھی کہانیاں لکھی ہیں اور ایسی بھی جن میں کرداروں کے نام موجود ہیں۔ وہ جو منشایاد کا جس طرح کہنا ہے کردار کی کھال میں بیٹھنا ‘ تو میں نے کرداروں کی کھال میں بیٹھنے کی بجائے کہانی کو اپنے اوپر طاری ہونے دیا ہے ۔ اب رہی افسانے میں نقاد کی بات تو کوئی بھی فن پارہ زندگی پر تنقید بھی ہوتا ہے ۔ ہم زندگی سے بالکل وہی کردار نہیں لیتے تاہم افسانے کے کردار جیسا کردار روزمرہ زندگی میں ہونا ممکن ہوتا ہے کرداروں کو recreateکر کے میں اپنے اوپر وارد ہونے والے سوالات کو بیان کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ۔
منشا یاد: بہت خوب گفتگو ہوئی ۔ یہ گفتگو جہاں حمید شاہد کے تخلیقی عمل کو سمجھنے میں معاون ہوگی ۔ جہاں تک واحد متکلم میں کہانی لکھنے کا سوال ہے تو یہ تیکنیک کا مسئلہ ہے ۔ جب لکھنے والا اِس میں سہولت محسوس کرے اور خود کو اس کے ذریعے بہتر طور پر explore کر ے تو اس تیکنیک کو استعمال کرتا ہے ۔ سادہ زبان استعمال کرنے کا مشورہ بھی بجا ہے تاہم سادہ زباں لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ ہم سب ترقی پسند تحریک کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تحریکیں اپنا مقصد پورا کرتی ہیں اور اُس کے بعد ختم نہیں ہوتیں بلکہ نئے دور میں جذب ہو جاتی ہیں۔حلقہ ارباب ِ ذوق میں سب سے زیادہ ترقی پسندانہ باتیں کی گئیں ہیں، سب لکھنے والے کسی نہ کسی سطح پر دوسروں سے ضرور متاثر ہوتے ہیں اور ادبی تحریکیں بھی لامحسوس طریقے سے انسانوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ حمید شاہد نے ان سب اثرات سے بچ کر افسانہ نگاری کی کو شش کی ہے اورجیسا کہ حمید شاہد نے خود کہا کہ اُنہیں تسکین صرف کہانی میں ملتی ہے تو کہانی نے انہیں شناخت بھی دی ہے ۔
محمد حمید شاہد : میں حلقہ اربابِ ذوق راولپنڈی کا شکرگزار ہوں جس نے اُن کے ساتھ اِس نشست کا اہتمام کیا۔اور تمام احباب جو اس گفتگو میں شریک ہوئے ۔

٭٭٭