Saturday, February 28, 2009

ادب ستارہ: محمد حمید شاہد













رپورٹ =خلیق الرحمن

ادب ستارہ: محمد حمید شاہد
حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کی ایک تقریب

معروف افسانہ نگار اور نقاد محمد حمید شاہد کے فن اور شخصیت کے حوالے سے ”ادب ستارہ“ سلسلے کی ایک خصوصی نشست حلقہ اربابِ ذوق اسلام آباد کے تحت اکادمی ادبیات کے رائیٹرز ہاﺅس میں منعقد ہوئی جس میں راولپنڈی /اسلام آباد کے شاعروں اور ادیبوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ اس خصوصی پروگرام کی صدارت منشایاد نے کی جب کہ مہمان خاص ضیا جالندھری تھے ۔ پروگرام کی ابتداءمیں ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا مضمون پڑھا گیا۔مضمون حلقہ کے سیکرٹری اصغر عابد نے پیش کیا۔ یہ نشست غیر معمولی طوالت اختیار کرگئی اور صاحب شام کے فن وشخصیت پر بھرپور گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے مضمون سے اقتباس اور شرکا ءکی گفتگو کا خلاصہ :
ڈاکٹر ستیہ پال آنند : محمد حمید شاہد نے اپنے افسانوں میں روایتی افسانے کی کوتاہ دستی اور تنگ دامانی سے تجاوز کرنے کے بعد مصنف نے جس تیکنیک پر تکیہ کیا ہے وہ حکایتی اسلوب نگارش ہے ۔اساطیر کی بازیافت اور عہد حاضر میں ان کی پیوستگی ہے ۔ سامی ‘یونانی‘ رومی اور ہندوی دیومالائی حکایتوں ‘بودھی بصیرت کی جاتک کتھاﺅں اور اسلامی تاریخ ‘لے جنڈ اور قصص‘ ہندایرانی تہذیبوں کے انسلاک سے معرض وجود میں آئی ہوئی قصہ گوئی اور قصہ خوانی کی مختلف تیکنیکس اور اسالیب‘ عوامی کلچر میں بس جانے والی لوک کہانیاں‘ ان کی باز یافت اور ذو آفرینی پر استوار حمید شاہد کی کہانیاں یقینا اردو افسانے کی معنوی سطحیت سے معنیاتی تہہ داری کی طرف مراجعت کرتی ہیں ۔ وہ اجتماعی لاشعور میں خوابیدہ داستانوں کو ڈھونڈ نکالتے ہوئے اپنی ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا ہالہ ان پر مرکوز کرتے ہیں۔ انہیں استعاراتی تفاعل کا ہنر آتا ہے۔ وہ معنیاتی انسکلات پر قدرت رکھتے ہیں اور علامتی مفاہیم کا فن جانتے ہیں ۔
علی محمد فرشی: ڈاکٹر آنند نے اسلوبیاتی سطح پر حمید شاہد کے افسانوں کا جائزہ لیا ہے جب کہ ان کے ہاں موضوعاتی سطح پر بھی بڑا تنوع ملتا ہے ۔ ان کے افسانوں کے پہلے مجموعے ”بند آنکھوں سے پرے“ میں ترقی پسندانہ روایت اور سماجی حقیقت نگاری کی روایت سی جڑی ہوئی کہانیوں قدرے حاوی ہیں جبکہ دوسرے مجموعے ”جنم جہنم “ میں افسانے کے جدید تر رجحان والے افسانے‘جن میں علامت اور تجرید کو بھی برتا گیا زیادہ ہیں ۔ پہلے مجموعے میں اگر ”برف کا گھونسلا “ جیسے افسانے نمائندہ بنتے ہیں تو دوسرے میں ”جنم جہنم “ اور نئی الیکٹرا “ جیسے ۔ ان دونوں کتابوں کے بعد حمید شاہد نے جو مسلسل افسانے دیئے اور ملک کے اہم ادبی جریدوں میں شائع ہوتے رہے ان میں ایک نئے اسلوب کی بِنا ڈالی ہے ۔ روایت اور جدیدیت کے اسالب یہاں آکر باہم آمیخت ہوگئے ہیں افسانہ اپنے کہانی پن کو مجروع بھی نہیں ہونے دیتا اور ایک برتر سطح پر علامت بھی بن جاتا ہے ۔ موضوعاتی سطح پر دیکھیں تو اپنی جڑوں سے کٹنا‘ دیہاتوں سے شہروں کو منتقلی‘ شہری زندگی میں ایڈجیسٹ نہ ہونا سے لے کرمعاشرتی اور سماجی اکھاڑ پچھاڑ جیسے موضوعات کو خوبی سے برتا گیا ہے اور اس ضمن میں ” تکلے کا گھاﺅ“ اور” معزول“ ایسے افسانی ہیں جنہیں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ۔ عورت اور مرد کے درمیان معاملات کو بھی حمید شاہد نے عورت کے دکھوں کے قریب رہ کر لکھا ہے ”آٹھوں گانٹھ کمیت“ اور ”رکی ہوئی زندگی “ پیش نظر رہے ۔ نائن الیون کے بعد کے افسانوں مثلا ”لوتھ“ ”گانٹھ“ اور سورگ میں سور“ میںحمید شاہد کا فن اپنے نئے اسلوب میں عروج پر نظر آتا ہے جو انہیں اپنے ہم عصروں میں الگ سے شناخت دیتا ہے۔
پروفیسر جمیل آذر: محمد حمید شاہدکی افسانے پڑھنے میں بہت دلچسپ ہوتے ہیں ۔ ان کے ہاں سیاسی ‘سماجی اور معاشرتی شعور بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے ۔ان کے افسانے کا سفر ” برف کا گھونسلا “ سے شروع ہوت ہے اور ”سورگ میں سور“ جیسے بڑے افسانے تک پہنچتا ہے۔ بے شک اس افسانے کو ہم منٹو‘ بیدی اور انتظار حسین کے ایسے ہی افسانوں کے مقابلے میں رکھ سکتے ہیں ۔اس افسانے میں بھیڑ بکریوں‘ کتوں اور سوروں کی کہانی جس طرح آخر میں ایک علامت کا روپ دھارتی ہے اس سے پڑھنے والے کے بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ واقعی حمید شاہد بڑا فن کار ہے ۔ حمید شاہد نے بھی منشایاد کی طرح افسانے کو لایعنی جدیدیت کی فضا سے بچایا ہے ۔
پروفیسر اکبر حمیدی: حمید شاہد شخصی سطح پر بھی خوبیوں کے مالک ہیں ‘تعاون کرنے والے اور اپنی کمیٹمنٹس کو نبھانے والے ۔ ان کے افسانے تواتر سے ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔مجھے ان کے افسانے بہت پسند ہیں ۔انہیں سماجی حقیقت پسندی کی کہانیاں کہا جاسکتا ہے ۔اپنے ہم عصروں میں وہ نمایاں ترین افسانہ نگار ہیں ۔جہاں تک ان کی تنقید کا تعلق ہے تو اس ضمن میں وہ شدت پسند واقع ہوئے ہیں اور شاید اپنی بات منوانے اور اپنی راہ صاف کرنے کے لیے ایسا ضروری بھی ہوتا ہے۔
منظر نقوی: شخصی حوالے سے حمید شاہد نفیس ترین اور تخلیقی طور پر عمدہ اور فعال تخلیق کار ہیں ۔ فنی سطح پر ان کے تین حوالے بنتے ہیں :افسانہ ‘تنقید اور تراجم۔ افسانوں پر بات دوستوں نے کی میں تراجم کے حوالے سے ان کی کتاب ”سمندر اور سمندر“ کی طرف توجہ دلاﺅں گا اور کہنا چاہوں گا کہ ترجمے کے لیے تخلیقات کے چناﺅ سے حمید شاہد کے اعلی تنقیدی قور تخلیقی ذوق کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ ان کے اندر کا شاعر ان تراجم میں بھی نظر آتا ہے ۔
رضوانہ سیدعلی: حمید شا ہد کے ا فسانے پڑھنے میں دلچسپ مگر موضوعات کے حوالے سے مشکل ہوتے ہیں ۔انہوں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی درست سمت میں راہنمائی کی ہے ۔
اصغر عابد: حمید شاہد نے گزشتہ دہائی میں افسانے اور تنقید کی حوالے سے اپنا مقام بنایا اور اس کے لیے وہ تخلیقی سطح پر بہت فعال رہے ۔بظاہر خاموش طبع اور ٹھنڈے مزاج کے ہیں مگر تخلیقی طور پر بہت سرگرم ۔ ان کے ہاں ہر بار بڑے موضوعات سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے بیانیہ اور علامتی ہر دو طرح کے افسانے لکھے اور پھر ایک ہی فن پارے میں ان دو کو ایک ساتھ برتاجس کے حوالے سے بہت سے مباحث قائم ہوئے۔ حمید شاہد کی تنقید کو شدت پسند کہا گیا جب کہ میں سمجھتا ہوں کہ تنقید کے باب میں ان کا رویہ نہایت متوازن ہے ۔ادبی مجالس میں بھی ان کی تنقید اور تجزیے اہم ہوتے ہیں ۔ایسی تنقید کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے کہ یہ مصلحت پسندی سے آزاد ہوتی ہے ۔
فرحین چوہدری : حمید شاہد کو میں بارہ پندرہ سالوں سے جانتی ہوں ۔وہ انفیس اور اچھی شخصیت کے مالک ہیں ہی ایک بہت عمدہ تخلیق کار بھی ہیں ۔ ان کی تنقید ہمیشہ حقیقت پسندانہ ہوتی ہے ۔جہاں تک ان کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے تو چاہے وہ بیانیہ کہانی ہو یا علامتی وہ صرف مقامی نہیں رہتی بلکہ اپنے فکری حوالے سے آفاقی ہو جاتی ہے۔ ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے قاری تہذیبی اور تاریخی سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہے ۔ان کی تخلیقات کے مطالعے میں عالمی ادب کے مطالعے کا سا لطف ملتا ہے ۔
امتیاز ا ے قریشی: حمید شاہد کی کہانیاں اسلوبیاتی سطح پر بہت عمدہ ہوتی ہیں ۔ فکری سطح پر بہت گہری کہ عام قاری پورے مفہوم کو نہیں پا سکتا مگر زبان اس خوب سے لکھتے ہیں کہ انہیں دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے ۔ ان کے ہاں زبان کا استعمال اور جملے کی ساخت اس قدر کمال کی ہوتی ہے کہ ہم اسی طرح کی جملے لکھنا چاہتے ہیں ۔
پروفیسرسلمان باسط: میں سمجھتا ہوں کہ حمید شاہد کے پانچ شیڈز بنتے ہیں ۔ افسانہ ‘ تنقید‘ سیرت نگاری‘ نثم نگاری اور شخصیت کا حسن ۔ سیرت کے حوالے سے انہوں نے ”پیکرجمیل “ جیسی کتاب دی ۔ باقی حوالوں سے آپ نے بات کی ۔ شخصی اور تخلیقی سطح پر وہ یوں قد آور ہیں کہ ہر دو سطحوں پر وہ اخلاص کو مقدم رکھتے ہیں ۔
علی محمد فرشی: ادب میں حمید شاہد تخلیق کار سے زیادہ تخلیق کو اہمیت دیتے ہیں جس سے ان کی شدت پسندی کی طرف دھیان جاتا ہے ۔ یوں توانہوں نے نظمیں بھی لکھیں جنہیں وہ نثمیں کہتے ہیں اور شروع میں انشائیے بھی لکھے جن کی بابت میں کچھ زیادہ نہیں جانتا۔ اب وہ تنقید بھی لکھتے ہیں لیکن ان کی اصل شناخت افسانہ ہی ہے ۔
وقار بن الہی: حمید شاہد کا افسانہ ”سورگ میں سور “ جب پہلی مرتبہ رابطہ کے جلسے میں پڑھا گیا تو وہ اتنادلچسپ اور چونکا دینے والا تھا کہ اس پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی ۔ ان کے افسانے اسی مباحث کو چھیڑتے ہیں ۔
انصر علی انصر: حمید شاہد جملے کے معیار کو قائم رکھتے ہیں اور کمزور جملے کو نہ تو اپنے افسانوں میں اور نہ ہی کسی کے دوسرے کے افسانے میں برداشت کر تے ہیں۔
احمد جاوید: حمید شاہد کا کام بہت سمتوں میں ہے لیکن ان کی اصل شناخت افسانہ ہی ہے اور بلاشبہ وہ ایک سنجیدہ افسانہ نگار ہیں ۔ ان کا اسلوب منفرد ہے۔ ”جنم جہنم“ میں جو انہوں نے نظم کی لائنوں میں لکھنے کا تجربہ کیا ہے یا پھر کچھ اور افسانوں میں دوسری تیکنیکس۔ وہ تجربے تو ہوچکے ‘حمید شاہد نے جو اپنا اسلوب بنایا ہے انہیں اسی سے وابستہ رہنا چاہیے ۔جدید افسانے کی تحریک کے بعد نمایاں ہونے والے اپنے ہم عصروں میںوہ اہم تر افسانہ نگار ہیں ۔ جہاں تک افسانوں میں بلندفکری کی بات ہے تو اس کے پیچھے بھاگا نہیں جاتا کہانی اپنی فکر خود بناتی ہے ۔
رفیق سند یلوی: حمید شاہد نے بہت لکھا مگر اس کے باوجود ایک معیار برقرار رکھا ۔ کتابوں پر ان کے تبصرے سینکڑوں میں ہیں ۔ بظاہر ان سب میں معیار کو برقرار رکھنا آسان نہیں ۔حمید شاہد کی کہانیاں نیم دلچسپ ہوتی ہیں تاہم ایک آگہی ان کہانیوں میں ضرور ہوتی ہے ۔ اب وہ اپنا اسلوب اور ڈھنگ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ جہاں تک پنجابی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے کا معاملہ ہے تو اسے میں ہضم نہیں کر سکایہ چیز لسانی سطح پر کس حد تک قابل قبول ہوسکتی ہے اسے دیکھا جانا چاہیے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حمید شاہد کے افسانوں کوآج پورے افسانوی پس منظر میں رکھ کر دیکھا جائے ۔ ان کے دونوں کتابوں کے بعد کے افسانوں کو ان کے فکشن کے سفر میں ایک نئی سیڑھی کہا جاسکتا ہے ۔
پروفیسر جلیل عالی : حمید شاہد کے ہاں کافی لکھنے کے بعد بہت نکھار پیدا ہوا ہے ۔ ان کا اسلوب اپنے موضوع اور ان کا موضوع اسلوب کی تلاش میں ہوتا ہے ۔ زبان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا زخیرہ الفاظ بہت وسیع ہے اور اس کا ثبوت ان کا زیر تحریر ناول ہے جس کے ابواب ہم حلقے کے ان جلسوں میں سن چکے ہیں ۔ یہ ناول تہذیبی اور ثقافتی سطح پر باطنی حقیقتوں کو پیش کرتا ہے ۔
پروفیسر اقبال آفاقی : حمید شاہد کے ہاں افسانے کی ٹریٹمنٹ کے حوالے سے متضاد رویے ملتے ہیں تاہم ایک بات واضح ہے کہ ان کے ہاں کہانی کی شناخت موجود ہے۔ حمید شاہد تپسیا کرنے والا فن کار ہے ۔ میری نظر میں حمید شاہد افسانے کی تیسری جنریشن کے سب سے قد آور افسانہ نگار ہیں ۔۔ ان کی شخصیت میں ایک اچھے انسان اور قلم کار کے سارے عناصر موجود ہیں جو انہیں بہت بڑا قلم کار بنانے میں مددگار ہورہے ہیں ۔ تاہم میری خواہش ہے کہ وہ تنقید کے بجائے افسانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔
اختر عثمان : حمید شاہد نے ایک تقریب میں میرے اور اپنے تعلق کو ”لَوّاینڈ ہیٹ“ کا تعلق قرار دیا تھا جب کہ میں اسے واٹر شیڈ جیسا سمجھتا ہوں ۔ ان کے اندر جتنے امکانات بکھرے ہوئے ہیں شاید وہ خود بھی ان سے آگاہ نہیں ہیں ۔مختلف رسالوں اور ادھر ادھر ان کی بکھری ہوئی تحریروں کو پڑھتا ہوں تو جھنجھلاہٹ ہوتی ہے کہ تنقیدمیں وہ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔ ان کے تبصرے زیادہ ہوتے ہیں جن سے کوئی تنقیدی تھیوری سامنے نہیں آتی ۔ تاہم حلقے کے جلسوں میں ان کی تنقید اور تجزیے ایک ذمہ دار اور سوچنے والے تخلیق کار کے طور پر لیے جاسکتے ہیں اور اگر انہیں کسی صورت ‘تنقیدی شکل میں شائع کیا جائے تو ان کی بہت اہمیت ہوگی ۔جہاں تک افسانوں کا تعلق ہے تو ان کے چار افسانے بہت پسند ہیں اور یہ ”برشور“ ” لوتھ“ ” نئی الیکٹرا“ اور ” سورگ میں سور “ ہیں ۔ ان کے افسانے لسانی حوالے سے آگے بڑھتے ہیں۔ ان کے ناول میں زبان کے معاملے میں ڈپٹی نذیر احمد والی دقت پسندی کا رویہ ملتا ہے ۔
ضیاءجالندھری : جہاں تک زیادہ لکھنے اور معیار برقرار رکھنے کا معاملہ ہے تو اس ضمن میں دستو ئیفسکی کی مثال سامنے رکھنی چاہیے ۔وہ زیادہ لکھنے کے باوجود عمدہ تخلیق کار تھا۔ جہاں تک اسلوب کی بات ہے ‘یہ لکھنے والے کے ہاں خود بخود بن جاتا ہے اور ایک دفعہ بن جائے تو بدلتا نہیں ہے ۔ پنجابی لفظوں کے ہضم نہ ہونے کے حوالے سے میں کہوں گا کہ جو لفظ ضرورت کے مقام پرآئے وہ دوسری زبان کا نہیں رہتا اسی زبان کا ہوجاتا ہے ۔ حمید شاہد کی تنقید کی کتاب ” ادبی تنازعات“ میری نظر سے گزری ہے اور میں نے بطور خاص نثم کے حوالے سے ان کے مضامین کو پڑھا ہے ۔ میں نثم یا نثری نظم کا حامی نہیں ہوں اور اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ سنانا چاہتا ہوں کہ ایک مرتبہ ن م راشد بھی نثری نظمیں لکھ کر ہمیں پڑھنے کو دیں ۔ ہم متاثر نہ ہوئے تو کہنے لگے کہ ان میں باطنی طور پر ایک ردھم موجود ہے جب میں پڑھوںگا تو آپ کو بھی وہ محسوس ہوجائے گا ۔ ن م راشد نے انہیں پڑھا بھی مگر ہمیں وہ ردھم محسوس نہیں ہو ا۔ بعد میں راشد نے ایسی نظمیں نہ لکھیں ۔ تنقید کا معاملہ یہ ہے کہ پہلے سے طے کرکے کسی کتاب کو نہیں پڑھنا چاہیئے کہ ہمیں کیا تنقید کرنی ہے اپنے نقطہ نظر کو الگ رکھ کر پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ تخلیق کار نے اپنا معیار قائم کیا ہے یا نہیں ۔
منشایاد : اگرچہ حمید شاہد کے بہت سے تخلیقی پہلو ہیں لیکن ان کا بنیادی حوالہ فکشن ہے ۔ حمید شاہد نے تنقید لکھی مگر تنقد نگار ہونے کا دعوی نہیں کیا ۔ حمید شاہد ادبی اور تخلیقی سطح پر بہت سرگرم ہیں اور ہمیں بھی فعال کیا ہے۔ان کے تنقیدی مضامین بھی اسی ذیل میں آتے ہیں ۔ تاہم وہ اپنی فکر اور نظریات کے معاملے کسی لیت ولعل سے کام نہیں لیتے اور نہ ہی کہیں کمپرومائیز کرتے ہیں۔ افسانے کے معاملے میں وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر لکھتے ہیں ۔ ان کے زیر تحریر ناول کا معاملہ یہ ہے کہ جب اس کے کچھ ابواب حلقے کے جلسوں میں سنے تو میں نے کہہ دیا تھا کہ اس کا معیار اتنا بلند ہے اسے قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا ۔ اس کی زبان وبیاں سے خوف آنے لگا تھا کہ کہانی کو آگے بھی تو بڑھانا ہوتاہے۔ حمید شاہد کے ہاں تخلیقی بے قراری ہے اور یہ ہر جینوئن لکھنے والے کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔ ان کی افسانہ نگاری میں اسلوب اور کہانی پن کی بابت کہنا چاہوںگا کہ ان کا اسلوب تبدیل نہیں ہوتا ہر کہانی اور ہر افسانہ ایک الگ انداز کا تقاضہ کرتا ہے اور حمید شاہد یہ بات جانتے ہیں ۔ان کی کہانی ” منجھلی“ اسلوبیاتی ہوالے سے بیانیہ اور نفسیاتی کہی جاسکتی ہے تو جزیات کو سلیقے سے لکھنے کی مثال ”سورگ میں سور “ سے مل جاتی ہے ۔ یہ بظاہر بیانیہ کہانی ہے مگر ٹریٹمنٹ ایسی ہے کہ آخر میں ایسا علامتی ماحول بنتا ہے کہ کہانی مقامی سے زیادہ آفاقی ہو گئی ہے ۔ حمید شاہد کے افسانوں میں موضوعات اور ٹرےٹمنٹ کا تنوع ہے ۔ ان کے دوسرے اور جونیئر افسانہ نگاروں سے عمدہ تعلقات کی جو تعریف کی گئی ہے تو ہم سب کو اسے مد نظر رکھنا چاہیے ۔ سب تخلیق کاروں کو مجموعی طور پر عمدہ شخصیت کا مظہر ہونا چاہیے ۔بہر حال میں حمید شاہد کے حوالے سے بہت پر امید ہوں اور انہیں بہت آگے تک جانا ہے ۔
٭٭٭



Friday, February 27, 2009

Mitti Adam Khati Hae

Works of value
Literary endeavour of considerable merit...

By Dr Abrar Ahmad

Mitti Adam Khati Hai
By Mohammad Hamid Shahid
Academy Bezyaft, Karachi
Price: Rs 150 Pages: 122

There has been an over extended silence in the field of Urdu novel writing, making one wonder as to what stopped our writers from trying their hands at an art form as vast as life itself. The situation has suddenly changed during the last couple of years when novels of substantial merit started appearing one after the other.

'Mitti Adam Khati hay.' by Mohammad Hamid Shahid is the latest in the series. It's a short novel, and once you start reading the same brevity and the economic yet creative utility of words become its mainstay.

The central theme of the novel is the separation of east Pakistan in 1971. We may note here that the author belongs to a generation that was born and brought up as a Pakistani, having no traumatic recollections of the partition of 1947. The novel is one of the first creative pursuits addressing the split of our country by a member of this generation.

The story portrays two landscapes. One is the rural feudal setting in Punjab where the intricate human relations, the cruel dominance of the landlords and the psyche of the deprived is beautifully presented. From this locale the two main characters emerge. One is the narrator, who apparently announces his impartiality and assigns himself the task of only compiling a story. Soon we realise that he is an integral part of the central theme. From the same setup, Captain Salim emerges as the central character.

The other landscape is the battlefield of East Pakistan where Capt. Salim with other members of the fighting force approach the shores of Chittagong in a ship, all charged with a throbbing emotion to display their skill and bravery in order to save their country. But as they approach the coastal city, they perceive an air of hostility and enmity which dilutes their idealism into a haunting suspicion -- strong enough to demoralise them.

After they land, there is narrated a series of events which gives the reader a flavour of what happened, both in the battlefield and outside. The story ends with soldiers on a steamer waiting for Captain Salim in the dark of the night. He appears with Muniba, the Bengali wife of his fellow officer, who has fallen in love with him and has decided to leave her spouse, land and people. She is refused passage by other soldiers but helps the wounded Captain on to the boat. In the night of parting, Captain Salim catches a glimpse of Muniba who after being shot rises up, only to settle in the cruel ocean waves.

The following chapters contain a far more captivating narration which addresses the conclusions drawn from this adventure. The author beautifully philosophises the bitter realities and fate of the humans who fight for land both at micro and macroscopic levels. For land, he says, is destined to cover the dead bodies of humans only.

Water and soil are two dominant metaphors which in the perspective of a unified Pakistan convey a certain specific meaning. Soil is solid and firm while water moves restlessly and turns into a cruel tide when disturbed -- a tide which destroys any land.

The novel contains chapters with titles for each one -- a rare method adopted in a short novel. We usually witness such titles in voluminous works. The author could very well do without them. Nevertheless, it's an impressive novel which unfolds the talent of Mohammad Hamid Shahid as a competent novelist. By creatively utilising poetic metaphors in place of flat details he has infused an element of uniqueness in his work. A brace intact officer turns schizophrenic when he gets deprived of love and is haunted by memories of defeat and desertion.

In his incoherent thoughts, he remains fixed to the eternal truth of love and death. The author has affectionately dealt with the human situation and the novel bears a rare quality of becoming an integral part of the memory of any reader of Urdu fiction.

The News:Literate,News on Sunday

Thursday, February 26, 2009

Urdu Afsana: Soorat O Ma’ana


The critical muse

Reviewed by Asif Farrukhi

The most glorious moment in the history of literary criticism as applied to the art of fiction occurred in all probability when Henry James chose to write about The Future of the Novel and linked the development of fiction as an expression of the human condition. In the essay, bearing the same name, he remarked that “Till the world is an un-peopled void there will be the image in the mirror.” In James’s memorable phrase, this mirror image provided “the great anodyne” enabling man to ponder over the larger realities of the imagined world. For James, it was fiction, particularly the novel, which could play this life-enhancing role. However, if we make any detailed effort to critically examine the contemporary trends in Urdu fiction, we would repeatedly find ourselves coming against the same dead end, and we would be left pondering that if the images in the mirror have become so distorted then surely we have seen the world turning into the un-peopled void of James’s world without the novel.


This chilling reminder of a world with a prospect of fiction becoming a limited resource has been occasioned by the publication of Hameed Shahid’s critical essays on the contemporary Urdu short story. He has dedicated this book to Hasan Askari and Shamsur Rahman Farooqi, the two major critics of fiction in Urdu. Alongside he has included the name of Mumtaz Shirin, paying tribute to the writer turned critic. This again reminds one of what Henry James would term “the critical muse.” This is the vantage point for Hameed Shahid who is a notable fiction writer himself with a number of books to his credit. The matters of fiction which he has chosen to write about are not questions of sterile academic debate for him but living issues related to the substance of his art. This sense of analysis brooding over questions of meaning and form, and the evidence of personal involvement blend well to make this one of the few important books of fiction criticism in Urdu to have emerged in recent years. While this should give you an idea of the value of the book, it will also tell you about the state of criticism in general.

Hameed Shahid has developed his arguments in a number of separate essays. However, there are two important points of departure in the case he builds. He is emphatic about the independence of the short story as a literary genre and not simply a diminutive form of the novel. He refuses to see the short story as a novel cut up in halves or chopped down to size. He gives a wider meaning to the term ‘afsana’ and, in doing so, raises questions about the meaning of the narrative. He sees a richer heritage behind this term as he links it to the various forms of narrative in use within our society rather than simply accepting it as an alien form introduced under western influence. This sense of infusing the short story with widened horizons is, to my mind, the most distinctive feature of Hameed Shahid’s work as a critic.

Although he is inclined to read the contemporary short story as a form with firm roots in the past, he has severely contested veteran critic Intizar Hussain’s sense of loss over the demise of the oral tradition. Locking horns with the senior writer, he has taken up the debate in a most interesting way. In spite of Intizar Hussain’s wishes, can the oral tradition be brought back and can it be used to malign or negate the modern short story? Hameed Shahid has raised this issue and one wishes that other critics should further develop the discussion around these themes.

Interesting and relevant in the context these themes, the critic is on less firm ground when he is writing of contemporary concerns such as terrorism and modern-day scientific breakthroughs. These essays seem sketchy and the critic has not really allowed his arguments to develop.

By far the longest piece in the book, and disproportionately large, presents a detailed array of all short-story writers in the 20th century. However, even then the writer can manage a few sentences or at the most a paragraph or two about each writer, managing to come up with general statements. What diminishes their value is that mistakes can come up, as when Abul Fazl Siddiqui is credited as being the author of ‘Sard Lahoo Ka Noha’ while even a cursory glance could have revealed that the book was actually written by his nephew, Nazrul Hassan Siddiqui, an established short-story writer himself. This is the same mistake which Mirza Hamid Baig has made in the compendium compiled by the Pakistan Academy of Letters. There is arbitrariness in the way the various writers are described. A pattern does not emerge but writers are merely piled up. This sort of attempt is best left to the modern-day tazkiras of the more academic critics.

Tucked away right at the end is an interesting piece on the author’s own creative process, which throws into sharp relief many of the arguments presented in the main body of work. But what use is criticism if it cannot be related to and measured against the creative work of the artist?

----------------------------------------------------------
Urdu Afsana: Soorat aur Ma’ana
By Mohammad Hameed Shahid
Selected and compiled by Yaseen Afaqi
National Book Foundation, Islamabad
304pp. Rs160
Curtsy: Dawn, Books and Authors

Saturday, February 14, 2009

Marg Zaar

M.Hameed Shahid’s "Marg Zaar"
Islamabad__ M.Hameed Shahid’s stories written in the backdrop of 9/11 have introduced a different genre in Urdu fiction and by doing this he has set an example for other writers to follow.
Chairman Muqtadara Qaumi Zuban Prof Fateh Muhammad Malik held this opinion of Hameed Shahid’s stories while presiding over the launching ceremony of Hameed Shahid’s third collection of short stories titled as Marg Zaar at the Academy of Letters on Sunday.
Chairman Pakistan Academy of Letters Iftikhar Arif, eminent short story writer and play writer Mansha Yad, noted scholar Mubin Mirza, Nasir Abbas Nayyir, Ali Muhammad Farshi, Manzar Naqvi and Asghar Abid discussed different features of Hameed Shahid’s short stories. They gave an overview of general as well as particular themes in Hameed Shahid and called him “a prominent voice” who has a sensitive pen steeped in the woes and conflicts of modern times.
Prof.Fateh Muhammad Malik held that Hameed Shahid’s short stories are woven well. They remind one of Baidi and Manto as far as the questions of self and identity are concerned. He said Hameed Shahid has never lost touch with his soil and takes us back to days when values had certain place in our lives and people had an ear for a word of advice and goodness.
Iftakhar Arif said the use of the local vocabulary in Hameed Shahid is commendable. Though he looks at the word beyond him while his feet are firmly planted on earth. He called “Sovarg Mein Sour” (a pig in the paradise) his representative story and drew a comparison between him and other writes of short stories.
Mubin Mirza, a scholar and critic from Karachi, held that Shahid’s short stories not only reflect suffering of those living around but they also point out the global conspiracies and big powers’ ruthless use of force against the down-trodden nations. These aspects, said he, have contributed a great deal the growth of the writer’s creative genius.

Mansha Yad said Hameed Shahid has experimented with dictions, plot and different techniques of the story. He called Hameed Shahid a promising young writer whose has found a place in the list of first rate writers.
Ali Muhammad Farshi said according to writer of Marg zaar the whole world after 9/11 has turned into a battlefield where people in confusion as to whom their real enemy is. The stories foretell that thus graveness of future days the world is going to face, he said.
Nasir Abbas Nayyir (from jhang) high lighted different stages of self-reflexivity in Hameed Shahid and said his short stories are a good example of realism blended with creativity and folk wisdom.
Hameed Shahid while offering gratitude said it was the internal woes and feelings of sorrow that made him writes stories. He said a writer however focused to the story at hand could not live in isolation from the changes occurring around him. He said the gulf that appeared between the third world countries and the US after 9/11 shook him deep inside and he could not help making this a subject matter of his stories. An article by Amjad Tufail (from Lahore) was also read on this occasion. Dr. Najiba Arif and Manzar Naqvi introduced Hameed Shahid’s work to the audience.
(Pakistan OBSERVER 6 December 2004)

Halqa writers discussed short stories
Islamabad __ Hameed Shahid collection of short stories titled Marg zaar was described as well constructed in a meeting of Halqa Arbab-e-Zauq held here. Iftakhar Arif described the collection as one of the best written on the 9/11 incident, and Masnsha Yad had said that that by writing those stories the writer had joined the ranks of outstanding ficton writer of Urdu.
(DAWN: December 5, 2004)

Friday, February 13, 2009

منشایاد

منشایاد
افسانے کی نئی نسل کا معتبر نام: محمد حمید شاہد

محمدحمید شا ہد افسانہ نگار ہیں اوران کی نثری نظموںبلکہ نثموں کی ایک کتاب بھی چھپ چکی ہے لیکن وہ کہانی کونثری نظم یانثم بناناپسند نہیںکرتے۔ یوں توان کی شاعر اورافسانہ نگار کے علاوہ بعض اور بھی ادبی حیثیات ہیںجیسے نقاد،تاریخ نگار اور کالم نویس وغیرہ بلکہ ان کی تخلیقی جہات پر اظہرسلیم مجوکہ کی مرتب کردہ ایک پوری کتاب شائع ہوچکی ہے۔اور اس میںشک نہیںکہ وہ زرخیز ذہن اور فعال طبیعت کے تخلیق کارہیں۔ ان کے سوچنے اورلکھنے کی رفتار بہت تیزہے ۔انہیں ملک اور دنیا کے نئے اورعصری معاملات اورمسائل سے پوری آگاہی ہے اوران کی فکر راست ہے ۔وہ ہنگامی اورسامنے کے موضوعات کوبھی کوفکشن بنانے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہیںہے ۔بلکہ اس سے ان کی تحریروں میں واقعیت ،اثرپذیری اورزور پیداہوجاتاہے۔ ان کے افسانوں کے تین مجموعے شا ئع ہو چکے ہیں ‘بند آنکھوں سے پرے ‘جنم جہنم اور اب نیا مجموعہ” مرگ زار“ جسے اکادمی بازیافت نے کراچی سے شائع کیا ہے ۔
میں نے ان کے دوسرے مجموعہ ”جنم جہنم“ کے بارے میں نے کہاتھاکہ حمید شاہد کے فن ِافسانہ نگاری کی اہم خوبی ہے کہ وہ کسی ایک خاص ڈکشن کے اسیر نہیں ہوئے اور صاحبِ اسلوب بننے کی کوشش میں خود کو محدود نہیں کیا ۔صاحبِ اسلوب اور صاحبِ طرز کہلانے کی خواہش نے اچھے اچھوں کو ضائع کر دیا ۔کوئی موضوع یا مواد خواہ کتنا ہی قیمتی ہوتا اگر ان کے پہلے سے بنائے گئے فنی سانچے میں فٹ نہ ہوتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے مگر اپنے اسلوب میں لچک برداشت نہ کرتے۔ انہیں کہانی سے زیادہ اسلوب عزیز ہوتا۔مگر حمیدشاہد کے ہاں ایسا نہیں ہے۔ وہ خیال ،مواد اورموضوع کے ساتھ تکنیک اور اسلوب میں ضرورت کے مطابق تبدیلی پیدا کرلیتے ہیں۔ وہ ہررنگ کی کہانی لکھنے پرقادرہیںان کی کہانیاں زمین سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔اپنی تہذیب ،ثقافت اور اقدار کی خوشبولئے ہوئے اورافسانے کی روایت سے گہرا رشتہ رکھتے ہوئے ۔لیکن تازگی اورندرت کی حامل اورایسی پراثرکہ پڑھ لیں تو پیچھا نہیں چھوڑتیں ۔اندر حلول کرجاتی ہیں۔ خون میں شامل ہو جاتی ہیں۔میںسمجھتاہوںیہ خوبیاںان کے موجود ہ افسانوںمیںبھی موجود ہیںبلکہ انہوں نے کچھ نئے موضوعات اور تجربات بھی شامل کئے ہیںیاان میںاضافہ کیاہے۔ ہمارے ہاں دفتری زندگی پربہت کم لکھنے والوں نے توجہ دی ۔اس موضوع پرقدرت اللہ شہاب ، منیر احمد شیخ اوروقاربن الٰہی کے بعد حمیدشاہد کی کہانیاںقابل توجہ ہیں۔ مرگ زار میں شامل ان کی کہانی ” ادارہ اور آدمی “اس کی ایک عمدہ اور بھرپور مثا ل ہے ۔
موضوعات کی سطح پرانہوں نے بہت سی نئی چیزیں لکھیں۔ وہ کہانی جس پرکتاب کانام رکھاگیا بہت مشکل موضوع تھا اور یہ کہانی نازک ٹریٹمنٹ کاتقاضاکرتی تھی ۔میرے خیال میںیہ کہانی لکھتے ہوئے انہیں بھی خاصی احتیاط اورمشکل کاسامناکرناپڑا ہوگا۔ مگر وہ اپنی بات اورموقف کوتجریدکی دھند سے نکالنے اور بیان کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ا س کہانی کاموضوع جہاداورشہادت جیسا نازک مسئلہ ہے جس کی کچھ عرصہ پہلے تک کچھ اورصورت تھی اب نائن الیون اور عالمی طاقتوں کی مداخلت سے کچھ اورصورت بن گئی ہے۔یہ ایک دہلادینے والی پراثر کہانی ہے ۔اپنے بھائی کی لاش کے ٹکڑے ۔پھراس کتاب میںانہوںنے موت کی اور کئی ایک شکلوں کامطالعہ کیااور اس کے جبر اور انسان کی بے بسی کی مختلف صورتیں دکھائیں ہیں۔ ”موت منڈی میںاکیلی موت کاقصہ“ تومیںنے خود بنتے بھی دیکھی اوراس بات کاشاہدہوں کہ وہ اس کرب اور تکلیف کو ہوبہوگرفت میں لینے میں کامیاب ہوگئے جوکہانی کے جنم گھرمیں ہم سب کوپیش آئی تھی۔ موت کی منڈی کی اصطلاح پنجابی ایکسپریشن ”مویاں دی منڈی‘ ‘ کے قریب اوربہت خیال انگیز ہے ۔اسی طرح ان کی ایک کہانی ”موت کابوسہ“ بھی ایک حقیقی کردار کی کہانی ہے ۔’لوتھ ‘اور’دکھ کیسے مرتاہے‘ یہ سب صدموں او ر دکھوں کی کہانیاں ہیں لیکن آپ ان سب کہانیوں کوکھنگال کردیکھ لیں ان میںاصل نام کہیںنہیںملیں گے۔ یہی وصف ان کہانیوں کوسچی اورحقیقی ہونے کے باوجودفکشن بننے سے نہیںروکتا ۔
اگرچہ اس مجموعے میں مختلف ذائقے کی کچھ اور کہانیاں بھی ہیںجیسے ناہنجار،آٹھوں گانٹھ کمیت اوربرشور،تکلے کاگھاو،رکی ہوئی زندگی اورمعزول نسل وغیرہ مگر اس کتاب کی کہانیوں کی زیادہ تعداد موت کے مختلف روپ پیش کرتی ہے۔اسی لئے مصنف کومحسوس ہوا کہ اس بار توکہانیاںاس کاکچاکلیجہ چباکرہی مسکرائیں۔لیکن جس کہانی پریہ مجموعہ اور اس کامصنف بجاطورپرفخرکرسکیںگے وہ ان کی کہانی ”سورگ میںسور“ ہے۔اسکی کئی پرتیں ہیں ۔واقعاتی اورسامنے کی سطح پربھی اس کی ایک بھرپور معنویت موجودہے اوراس میںجس خوبصورتی سے جزیات نگاری کی گئی اور بنجرزمینوں کی ثقافت،معاملات ،بکریوں اوران کی بیماریوں اورروگوں کے بارے میں جوتفصیلات دی گئی ہیں وہ ان کے وسیع تجربے ،مشاہدے اورمعلومات کا بین ثبوت ہیں ۔پھرجس طریقے سے یہ کہانی ایک علامتی موڑ مڑتی او رسیاسی جبرکی ایک نئی معنویت سے ہمکنارہوجاتی ہے وہ ان کے فن کاکمال ہے۔انہوں نے اس کتاب میںتکنیک اور اسلوب کے کئی ایک نئے تجربات بھی کئے ہیں۔ جیسے راوی اورمتکلم کو ایک دوسرے سے ا لگ کرتے ہوئے کہانی کوروک کر کئی ایک جگہوںپر وضاحتی نوٹس کااضافہ کرنا۔میںسمجھتاہوں کہ افسانے کی نئی اور موجودہ نسل میں حمیدشاہد کانام اورمقام بہت ہی معتبرہے اور ’مرگ زار‘ کے افسانے اس کی بہترین اورخوبصورت مثال ہےں۔

ڈاکٹراسلم فرخی


دراصل محمد حمید شاہد وہ بیباک اور معنی آفریں شاعر ہے جو زندگی کی سفاکیوں کو زیادہ قریب سے نمایاں کرنے اور بہ انداز شعر بیان کرنے کی خاطر افسانے کی محفل میں دراتا چلا آیا ہے ۔اس نے اپنی شاعرانہ سرشت سے افسانے میں حقیقت پسندانہ انداز کے ساتھ شعریت کو سمو کر ایسی روایت کی تخلیق کی ہے جس کی اساس صداقت اور ہمہ گیر انسانی جذبہ ہے۔محمد حمید شاہد کے افسانوں میں شہر اور دیہات دونوں ایک رشتہ میں بندھے نظر آتے ہیں ۔ دونوں میں خارجی وجود کا بھرپور اظہار بھی کرتے ہیں اور ان کے باطن سے ایک نہیں کئی لہریں اٹھتی اُبھرتی اور پھیلتی محسوس ہوتی ہیں۔ محمد حمید شاہد نے بھر پور اظہار اور اٹھتی ابھرتی اور پھیلتی لہروں کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔ یہ افسانے محمد حمید شاہد کے خوب صورت ہمہ جہتی انداز اور فکر کا آئینہ دار ہیں۔

احمد ندیم قاسمی


محمد حمید شاہد نے سچی اور کھری زندگی کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا ہے ۔وہ کہانی کہنے کے فن پر حیرت انگیز طور پر حاوی ہے ۔ اس کے افسانوں کے ہر کردار کو زندگی کے اثبات یا نفی‘مسرت یامحرومی کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے۔ان افسانوں کا ایک ایک کردار ایک ایک لاکھ انسانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔محمد حمید شاہد نے اپنے افسانوں کو لمحہ ¿ رواں کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی تاریخ کا درجہ بھی دے دیا ہے۔

ممتاز مفتی

ہم آج تک اپنی پر اسرار” میں“ کو نہیں سمجھ پائے تو دوسروں کو کیا سمجھیں گے۔ کہانی اس پر اسرار ”میں“ کی جھلکیاں پیش کرتی ہے ۔ اس لحاظ سے کہانی ایک عظیم تخلیق ہے ۔ ہر کہانی کار انسانی” میں “ کی ”پرزم“ کے رنگوں کی جھلکیاں دکھانے کی کوشش کرتا ہے ‘ دقت یہ ہے کہ بات کا صرف کہہ دینا کافی نہیں ہوتا ۔ ضروری ہے کہ بات پہنچ بھی جائے۔ محمدحمید شاہد کے بات کہنے کا انداز ایسا ہے کہ وہ پہنچ جاتی ہے ۔ اس کے بیان میں سادگی اور خلوص ہے‘ خیالات میں ندرت ہے۔ اس کا نقطہ نظر مثبت ہے اور اس کی سچائیوں میں رنگ ہے ‘رس ہے ۔

Thursday, February 12, 2009

مٹی آدم کھاتی ہے

Mitti Adam Khati Hae

Symbolic depiction of a national tragedy

Mohammad Hameed Shahid's Urdu novel "Mitti Adam Khati Hai"

by Schezee Zaidi

Islamabad: Mohammad Hameed Shahid's Urdu novel "Mitti Adam Khati Hai" launched at Pakistan Academy of Letters (PAL) on Monday is an attempt to portray the national tragedy of 1971 debacle in a more humanistic way. Starting from the title to the neatly woven realistic characters, the author paint a symbolic picture of the debacle, connecting it to the impact left on the hearts and minds of the people of this country.In an informal ceremony, PAL Chairman Iftekhar Arif, National Language Authority Chairman Professor Fateh Mohammad Malik, eminent writer and literary critic Mansha Yaad and Ali Mohammad Farshi evaluated the book as a unique experiment reflecting the point of view of the author presented through a creative window. Professor Fateh Mohammad Malik, in his comment on the book, said that it raises those pertinent questions about the 1971 debacle that have remained unanswered even today. Talking about Intezar Hussain's 'Basti' and Mustansar Hussain Tarar's 'Rakh', he said, very little has been written on Pakistan's independence and 1971 debacle in Urdu Novels and travelogues. Fateh Malik expressed contentment that today's writers have started reflecting on national thoughts in their writings.

Iftikhar Arif said that very little has been written about the 1971 debacle in Urdu literature and whatever came in writing was one-sided. He said that one cannot blame any one or a group , but there was a need to capture the event on the whole, giving the true perspective of the role of United States, India, the freedom movement of Bengalis and the mistakes made by our leaders of the time that led to this national tragedy. He said that apart from Masood Mufti's memoir, very little has been written on this national tragedy in Urdu. Iftikhar Arif said that Hameed Shahid's book raises issues that are our very own in an effort to highlight a point of view expressed with inspired porthole. Mansha Yaad reflected on the book as an experiment of the author. He said that being an 'afsana-nigar' with a number of books to his credit, Hameed Shahid could not refrain from his style and evolved a new style by absorbing both fiction and short story style in his first novel. Giving a detailed snap of the characters portrayed by the author has woven a pragmatic portrait of people experiencing the same sensitivities of ache and pain in the same chronological background.




Ali Mohammad Farshi sketched the technical and philosophical context of the book and the weaving of various characters by the author, terming it as a parallel story linking the national and geographical tragedy. He said that the book depicts a humanitarian element out of a political upheaval.(The News: Islamabad: 20.03.2007)

پروفیسر فتح محمد ملک

پروفیسر فتح محمد ملک

بند آنکھوں سے پرے‘ جنم جہنم اور مرگ زار


محمد حمید شاہد ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کے خوگر بھی ہیں اور دل کی آنکھ کھولنے میں کوشاں بھی۔ وہ عصری زندگی کے مصائب پر یوں قلم اٹھاتے ہیں کہ عصریت اور ابدیت میں ماں بیٹی کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے ۔ ان کی کہانیاں شہر وجود کے خارجی احوال و مقامات کی سیر بھی کراتی ہیں اور حاضر و موجود کا طلسم توڑ کر غائب اور نارسا کی جستجو میں ان گنت گہرے خیالوں کو بھی جنم دیتی ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے محمد حمید شاہد نے ملا وجہی سے لے کر انتظار حسین تک ”سب رس“ سے لے کر ”شہر افسوس“ تک اردو فکشن کے تمام تر اسالیب کو سوچنے سمجھنے اور دیکھنے بھالنے کے بعد افسانہ نگاری کی اقلیم میں قدم رکھا ہے۔محمد حمید شاہد کے افسانوں کی پہلی کتاب”بند آنکھوں سے پرے“ میں ہر دو روایات الگ الگ اپنا جادو جگا رہی ہیں” برف کا گھونسلا“ اور ”مراجعت کا عذاب“ میں جہاں وہ حقیقت نگاری کے اسلوب کو فنی مہارت کے ساتھ برتتے ہیں وہاں” آئینے سے جھانکتی لکیریں “ اور ”اپنا سکہ“ میں ہمیں شہر باطن کے شہر کی سیر کراتے اور کرداروں کے غیر مرئی وجود کا تماشائی بناتے ہیں ۔ محمد حمید شاہد کے افسانوں کے دوسرے مجموعہ”جنم جہنم“ میں خارجی حقیقت نگاری اور باطنی صداقت پسندی کے یہ دو اسالیب باہم دگر آمیز ہونے لگتے ہیں۔ ”نئی الیکٹرا“ ”ماخوذ تاثر کی کہانی“ اور جنم جہنم “ ہمارے افسانوی ادب کی اس نئی جہت کے نمائندہ فن پارے ہیں۔محمد حمید شاہد فلسفہ و تصوف میں اپنے انہماک کو مادی زندگی کے مصائب و مشکلات سے فرار کا بہانہ ہر گز نہیں بناتے ۔ چنانچہ اسی کتاب میں ‘انہی افسانوں کے پہلو بہ پہلو ہمارے معاشرتی اور اخلاقی زوال پر ”تماش بین“ اور ”واپسی“ کی سی دل پگھلا دینے والی کہانیاں بھی موجود ہیں ۔ وہ حقیقت کے باطن اور باطن کی حقیقت تک رسائی کے تمنائی ہیں .... نائن الیون کے پس منظر میں محمد حمید شاہد نے خوب صورت افسانے تخلیق کرکے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے ۔ میں ان کے افسانوں کا دیرینہ مداح ہوں اور ان کے افسانے محبت اور توجہ سے پڑھتا ہوں ۔” مرگ زار“ جیسی کہانیاں موجودہ عہد کا نوحہ ہیں ۔ ان کے ہاں تہذیبی شناخت کا رویہ بہت نمایاں اور قابل قدر ہے ۔ دوسرے موضوعات کے علاوہ ان کے ہاں غیرت و تقدس کی موت کی کہانیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ”برشور“ اور”رُکی ہوئی زندگی“ جیسی کہانیاں تخلیقی جوہر سے اس قدر بھرپور ہیں کہ اگر آج کے عہد میں بیدی اور منٹو ہوتے تو محمد حمید شاہد ان سے بھی داد پاتے ۔ ٭٭٭

افتخار عارف

افتخار عارف

اردو افسانے کا اہم نام:محمدحمید شاہد


محمدحمید شاہد بلا شبہ خالدہ حسین‘ منشایاد‘اسد محمد خان‘مظہرالاسلام ‘ رشید امجد‘ مشرف احمد اور احمد جاوید والی نسل کے بعد اُردو افسانے کے منظر نامے میں ظہور کرنے والی پیڑھی میں ایک بہت معتبر اور نہایت لائق توجہ افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
”بند آنکھوں سے پرے“ اور ” جنم جہنم “ کی اشاعت کے بعد ہی جہان ادب میں ان کی تخلیقی توانائیوں کا اعتراف کیا جانے لگا تھا ’اب ”مرگ زار “ کے بعد ان کے قدوقامت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ ان کی زیادہ مشہور کہانیوں کا خمیردُنیا کی بدلتی ہوئی صورت حال اور اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی کی حقیقتوں کے ادراک کے خمیر سے اُٹھا ہے جس میں اظہار کے تمام جمالیاتی مطالبات خوش سلیقگی کے ساتھ بروئے کار لائے گئے ہیں۔
مجموعی طور پر حمید شاہد کی کہانیاں احساس اور جذبے کی قوت سے آگے بڑھتی ہیں ۔ اپنی زمین سے اور اپنی تہذیبی روایت سے تشکیل پانے والی آگہی اور شعور کے ثمرات جا بجا رنگ بکھیرتے نظر آتے ہیں ۔ کہانیوں کے بیانیے میں استعمال ہونے والی زبان کی بھی داد دی جانی چاہیے کہ حمید شاہد کی نثر اپنے خالصتاً نثری آہنگ کے سبب دلآویز بھی ہے اور بہت مو ¿ثر بھی۔یہی سبب ہے کہ ایک بار آپ کوئی کہانی اُٹھا لیں تو وہ کہانی اپنے نثری آہنگ کی قوت پر آپ کو اختتام تک زنجیر کیے رکھے گی۔ حمید شاہد میرے نزدیک اُن محدود افراد میں ہیں جن سے اُردو افسانے کے وقار و اعتبار میں یقیناً اضافہ ہوگا۔

کردار سازی کا ہنر دیکھتے ہوئے مجھے منٹو یاد آ گیا ظفر اقبال

محمد حمید شاہد کا ناول :مٹی آدم کھاتی ہے

پچھلے دنوں محمد حمید شاہد کا افسانہ “برشور” پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں کردار سازی کا ہنر دیکھتے ہوئے مجھے منٹو یاد آ گیا کہ یہ کام اس سے خاص ہو کر رہ گیا تھا، اور، آپ کو کوئی تحریر پڑھ کر منٹو یاد آجائے تو بلاشبہ یہ کریڈٹ کی بات ہے۔ میری بدقسمتی یا خوش قسمتی یہ ہے کہ فکشن میں زیادہ شوق سے نہیں پڑھتا۔ ناول تو شاید ایک آدھ ہی میں پڑھ سکا ہوں گا کچھ تو درمیان ہی میں چھوڑنا پڑے۔ مثلاً “آگ کا دریا” بڑے شوق سے شروع کیا اور تقریباً نصف پوری محویت سے پڑھ گیا، لیکن جب گوتم کی کہانی ختم ہو گئی اور جدید عہد شروع ہوا تو یہ کچھ پہلے بھی کافی حد تک نظر سے گزر چکا تھا۔ اس لئے آگے نہ جا سکا حالانکہ اسے برصغیر کا سب سے بڑا یا بہت بڑا ناول قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح عبداللہ حسین کا مشہور و معروف ناول “اداس نسلیں ” بھی میں نے کہیں بیچ ہی میں چھوڑ دیا تھا۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فکشن کے معاملے میں میرا ہاتھ کس قدر تنگ ہے۔ البتہ افسانے کی بات اور ہے کہ یہ دس پندرہ منٹ میں ہی نمٹ جاتا ہے اور آپ فارغ۔ جبکہ انتظار حسین کا ناول “آگے سمندر ہے” واحد تصنیف ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے میں پورا پڑھ گیا۔ خاص وجہ شاید یہ بھی ہو کہ اس میں حسب معمول عمدہ نثر کا جادو جاگ رہا ہے کہ انتظار حسین تو اس لحاظ سے واقعی جادو گر ہے، ہاں یاد آیا، مستنصر حسین تارڑ کا ناول “بہاؤ” بھی ان خوش قسمت ادب پاروں میں شامل ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ اور ناول بھی اس فہرست میں ہوں جو مجھے یاد نہیں آ رہے۔اب آپ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر حالات یہ ہیں تو میں اس پر لکھنے کیوں بیٹھ جاتا ہوں ۔ تو، اس کا جواب ایک اور سوال میں موجود ہے کہ میں کالم کیوں لکھتا ہوں ؟ اگر آپ کی تسلی ہو گئی ہو تو اب ہمیں آگے چلنا اور شاہد حمید کے ناول پر بھی بات کرنی چاہئے اگرچہ کالم تنقید کی ذیل میں نہیں آتا لیکن تنقید واحد صنف ادب ہے، اگر اسے ادب کہا جا سکتا ہو، جس میں طبع آزمائی کے لئے کسی کوالیفکیشن کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ یعنی اگر آپ واجبی اردو جانتے ہیں اور جس صنف ادب پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں ، اس کی واجبی شد بدھ آپ کو حاصل ہے تو آپ بڑی آسانی سے نقاد کہلا سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ اب وہ لوگ چکھنے کے لئے بھی دستیاب نہیں جو تنقید کو تخلیق بنا دینے کا ہنر جانتے تھے۔ کیونکہ ہر صنف ادب کی طرح تنقید بھی، میں سمجھتا ہوں ، کہ کم از کم قابل مطالعہ ضرور ہو، جو کہ یہ اکثر اوقات نہیں ہوتی۔ بیشک اسے فکشن کی طرح نہیں پڑھا جانا چاہئے۔پروپیگنڈے کا جدید روسی نظریہ یہ ہے کہ اگر مثلاً کسی فلم میں ، چلتے چلتے، کوئی اشارہ سا ہو جائے تو وہ پوری فلم سے زیادہ کام کر جاتا ہے۔ اسی طرح اس ناول کا ایک کردار ہے، جو نہایت مختصر ہونے کے باوجود ذہن میں دیر تک جگمگاتا رہتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں ناول کے اندر کرداروں کی تعداد جتنی کم ہو گی، وہ اتنا ہی زیادہ اثر انگیز ثابت ہو گا۔ کیونکہ کردار اگر زیادہ بھی ہوں تو ایسے کہ قاری کے ذہن میں محفوظ ہوتے جائیں ۔ یہ نہ ہو کہ کسی کردار سے مانوس ہونے کے لئے آپ کو ناول کے کچھ حصے دوبارہ پڑھنا پڑیں ۔ اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ مرکزی کردار ہی اتنا جاندار ہوتا ہے کہ باقی بہت سے کردار ثانوی حیثیت اختیار کرتے ہوئے اپنا نقش قاری کے ذہن میں زیادہ دیر تک کے لئے قائم نہیں کر پاتے۔میرے ساتھ ایک خرابی یہ بھی ہے کہ میں زیر نظر تصنیف کا تجزیہ نہیں کرتا۔ شاید یہ میرے بس کا روگ بھی نہیں ہوتا کیونکہ میں تو شاعری کا تجزیہ بھی بالعموم نہیں کرتا کیونکہ میرے نزدیک اس چیر پھاڑ سے شاعری کا سارا حسن ہی ماند پڑ جاتا ہے، جبکہ میرے خیال میں شاعری سمجھنے کے لئے کم، اور لطف اندوز ہونے کے لئے زیادہ ہوتی ہے۔ میں تو اپنے کالم میں یہ اطلاع ہی دیتا ہوں کہ فلاں کتاب چھپ گئی ہے، اور مجھے کیسی لگی ہے۔ چنانچہ اس کالم کی افادیت بیشک اتنی سی ہی کیوں نہ ہو کہ محمد شاہد حمید کے شائق بہت سے پڑھنے والوں کو علم ہو جائے گا کہ ناول شائع ہو گیا ہے اور، ایک اخباری کالم سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں کرنی چاہئے۔یہ ناول اس صنف کی عام ٹیکنیک سے ہٹ کر لکھا گیا ہے۔ یعنی یہ صاف سیدھا بیان نہیں ہے اور اس میں شاعری کی طرح کچھ پیچیدگیاں جان بوجھ کر بھی پیدا کی گئی ہیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ واقعات کا بیان اس طرح سے ہے کہ اپنے وقوع کے حساب سے آگے پیچھے کر دیئے گئے ہیں ، اور اس لئے قاری کے لئے ذہنی مشقت کا بھی سامان پیدا کیا گیا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان اس کے پس منظر میں نہ صرف موجود ہے بلکہ اس کا اختتامیہ بھی بنتا ہے۔ چنانچہ اس میں تشدد کا بیان بھی ہے، اور، ڈرامہ بھی۔ شاعری میں تازگی لانے کے لئے جہاں بہت سے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں وہاں فکشن کو مرغوب اور دلچسپ بنانے کے لئے بھی بہت سے طریقے آزمائے جاتے ہیں جن میں سے ایک اس ناول میں بروئے کار لایا گیا ہے۔اس خصوصی ٹیکنیک کے باوجود ناول میں قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے جو کہ کامیاب فکشن کے ایک بنیادی وصف اور شرط کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ اس کے کردار بھی قاری کو متوجہ کئے رکھتے ہیں ۔ زیادہ تر افسانے اور، ناول بھی، چلتے چلتے اپنے منطقی انجام کو خود ہی پہنچتے ہیں اور مصنف کو اس کے لئے کوئی خاص تردد نہیں کرنا پڑتا، نہ ہی وہ یہ طے کر کے افسانہ یا ناول شروع کرتا ہے کہ وہ اسے فلاں انجام سے دو چار کرے گا۔ محمد حمید شاہد کے تین افسانوی مجموعوں کے بعد ان کی طرف سے یہ پہلا ناول آیا ہے جس کا پس سرورق شمس الرحمان فاروقی کے قلم سے ہے اور کوئی سوا سو صفحات کی ضخامت کو محیط یہ ناول”اکادمی بازیافت” کراچی نے پوری آب و تاب سے شائع کیا ہے جس کی قیمت 150 روپے رکھی گئی ہے۔ کتاب آدمی کے نام ہے جو مٹی کی محبت میں دیوانہ ہو چکا ہے۔ مصنف کی دیگر تصانیف معہ زیر طبع کتابوں کی فہرست کے علاوہ موصوف پر اب تک جو کام ہو چکا ہے اور جو اعزازات مصنف نے اب تک حاصل کئے ہیں ، ان کا تعارف بھی شامل

شمس الر حمن فاروقی

شمس الر حمن فاروقی
دکھ شاید سب کچھ سکھا دیتا ہے

دکھ انسانی صورت حال کا مستقل عنصر ہے۔ یہ ہمہ جہت اور ہمہ وقوع ہے۔ اولیاء اللہ کرام کو ہر باب میں نفس مطمئنہ حاصل ہوتا ہے لیکن دکھ سے خالی وہ بھی نہ تھے۔ حضرت نظام الحق والدین نظام الاولیا اکثر راتوں کو نہ سوتے اور اشکبار رہتے۔ ایک بار امیر خسرو نے ہمت کر کے اس کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ جب اس شہر میں ہزاروں بندگان خدا پر رات اس طرح گذرتی ہے کہ ان کے پیٹ میں روٹی نہیں اور تن پر چادر نہیں تو میں کیوںکہ سو سکتا ہوں۔ مشہور ہے کہ حضرت بابا نظام الدین صاحب رات کو استراحت کرنے کے پہلے گھر کا سب غلہ ، شکر، کھانا، حتی کہ پانی اور نمک بھی تقسیم فرمادیتے اور صرف اتنا پانی بچا رکھنے کا حکم دیتے جو تہجد اور فجر کے وضو کے لئے کافی ہو۔ میر کا شعراسی واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے-دیوان سوم-جب سے ملا اس آئینہ رو سے خوش کی ان نے نمد پوشیپانی بھی دے ہے پھینک شبوں کو میرے فقیر قلندر ہےکبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جینا اور دکھ سہنا ایک ہی شے ہیں، یا یوں بھی کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ جو دکھ سہتا ہے وہی جیتا ہے۔ اقبال نے اسی بات کو ایک اور رنگ میں ڈال کر انسان سے، یا شاید خدا سے، یا شاید دونوں ہی سے پوچھا تھایہ شب درد و سوز غم کہتے ہیں زندگی جسےاس کی سحر ہے تو کہ میں اس کی اذاں ہے تو کہ میں بظاہر اقبال کو کسی جواب کی توقع نہ تھی، اگر چہ ان کے کلام میں بعض ایسے بھی مقام آتے ہیں جہاں سوال سے زیادہ جواب کا وفور معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان ان کے یہاں بھی سرراہ بیٹھا ستم کش انتظار نظر آتا ہے۔ اجنبی اور غیر جنس کائنات میں انسانی وجود کا مقدر یہی ہے کہ وہ طرح طرح کے دکھ سہے۔ محمد حمید شاہد کے اس چھوٹے سے لیکن بقیمت بہت بہتر ناول میں دوراوی ہیں اور ان میں سے ایک اپنے باپ کے بارے میں بتاتا ہے:وہ اس بات پر یقین رکھتا رہا کہ ایک روز وہ معمول کی طرح یوں ہی اپنے بدن کو خوب تھکا کر سوئے گا اور موت سے ہم کنار ہوجائے گا۔ اور ہوا بھی یہی... اس روز وہ پوری طرح خالی الذہن تھا۔ اس نے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالا کہ اس کا انگ انگ دکھنے لگا حتی کہ اس کا وہیں ایک کونے میں بچھی پرالی تک پہنچنا بھی ممکن نہ رہا۔ اس نے دوچار قدم جیسے عادتاً اٹھائے اور گھوڑوں کے عقب میں پہنچ کر ننگی زمین پر ہی ٹانگیں پسار کر ڈھیر ہوگیا۔ اگلے روز اس کا مردہ وہیں سے یوں اٹھایا گیا کہ اس کا بدن دوہرا ہوگیا تھا۔ جب زندگی خالی الذہن ہو کر گذرے تو ہم توقع کر سکتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی محسوس نہ ہوگا۔ لیکن راوی کا باپ خالی الذہن ہونے کے باوجود احساس کی دولت (لعنت؟) سے عاری نہ تھا۔ ہمیں بتایا جا تا ہے کہ ’’چکرا کر گرتے وقت وہ زندہ تھا، اسے سوتے میں شدید سردی نے مار دیا تھا۔ ‘‘ یہ سردی شاید صرف موسم کی سردی نہ تھی، بلکہ بنی نوع انسان کے دلوں کی سردی تھی۔ ناول کا دوسرا واحد متکلم راوی اپنی محبوبہ کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے:یقین جانو یہ تو میرے گمان میں بھی نہ تھا وہ اپنی زمین چھوڑ نے کو تیار ہو جائے گی۔ابھی تک ہم دونوں پانی میں کھڑے تھے۔ انھوں نے اسٹیمر چلا دیا۔ میں بوکھلا کر اسٹیمر کی طرف لپکا۔ اسی اثنا میں ادھر سے سنسناتی ہوئی گولی آئی اور میری ران چیرتی ہوئی نکل گئی۔ منیبہ سب کچھ بھول کر یوں میری جانب بڑھی جیسے پھر سے زندہ ہوگئی ہو۔ اس نے مجھے تھام لیا اور ایک لمحے کا توقف کئے بغیر مجھے اسٹیمر کی طرف ڈھکیلا اور اس پر چڑھنے میں مجھے مدد دی۔ اب اسٹیمر کا رخ گہرے پانیوں کی طرف تھا مگر وہ وہیں کھڑی رہی۔ میں نے صاف صاف دیکھا تھا کہ فوراً بعد اس کا جسم وہیں پانی کے اوپر تک اچھلا تھا۔ میں نے گولیوں کی آواز نہیں سنی تھی۔ محض اس کا اچھلتا ہوا وجود دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ جہاں سے پانی کے چھینٹے اوپر کو اٹھے تھے وہاں کوئی اور حرکت نہیںہوئی تھی۔ ایک شخص اپنے باپ سے محروم ہوجاتا ہے۔ دشمن کے ہاتھوں نہیں، یہ اس کے اپنے ہی ہیں جو اس کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ ایک عورت کو اس کے اپنے گولی مار دیتے ہیں، کیوںکہ وہ انھیں چھوڑ کر جانا چاہتی ہے۔ ایک شخص جسے بچ رہنے کا کوئی حق نہیں (کیوںکہ اس کی محبوبہ نے اس کی خاطر اپنا گھر، اپنا پہلا شوہر، اور اپنی زمین ہی نہیں چھوڑی، بلکہ ایک اصول حیات کو چھوڑا ہے)، وہ لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہوتے ہوتے بچ نکلتا ہے۔ دکھ کی چادر بیمار اور صحت مند قوی اور ضعیف، سب کو ڈھک لیتی ہے۔لیکن جو بچ نکلا وہ بچا نہیں۔ اس کی منیبہ کو مکتی باہنی کے کسی بہادر نے گولی ماردی تو کسی خرم بھائی کی زر جان کا دامن اس سے باندھ دیا گیا اور زر جان کی ماں بیگم جان کو اس کامیاں اسے مار مار کر ادھ مرا کر دیتاہے اور کہتا ہے کہ تو ہی اس لونڈیا کو شہر میں پڑھنے کے لئے لائی تھی، یہ سب کرتوت تیرے ہیں۔ اور اس کے اگلے ہی روز زرجان کا خرم کسی ’’حاثے‘‘کا شکار ہوکر اسی بے بس دکھ کی آغوش میں جان دیتا ہے جس نے پہلے راوی کے باپ پر رات نہ گذرنے دی تھی۔ زرجان کو نکاح کے دھاگے میں باندھ دینے سے زندگیاں سدھر یں گی نہیں۔ دکھ نے منیبہ کے معشوق کیپٹین سلیم اور خرم کی معشوق زرجان دونوں کو کہیں اندر زخمی کر دیا ہے۔ زرجان کے باپ چہیتا گھوڑا سنہریا بھی اچانک زخمی ہوگیا تھا، لیکن اس کا زخم اس کے دائیں گھٹنے پر تھا۔ زرجان، سلیم، اور سنہریا کے زخموں میں مشابہت یہ ہے کہ ان میں سے کسی کا زخم مند مل نہیں ہوتا۔دونالی سے شعلے نکلے اور سنہریا گر کر زمین پر تڑپنے لگا۔ خان جی پلٹے، کہا، ’’اب یہ ہمارے کام کا نہیں رہا۔‘‘ پھر دو نالی کو جھٹکے سے دوہرا کیا اور کارتوس کے خول نکال کر اچھالتے ہوئے کہا، ’’جو کام کا نہیں رہتا، کہیں کا نہیں رہتا۔‘‘ زرجان کا کپتان شوہر اسے آٹے کی عورت کہتا ہے، ایسی عورت جس سے بھوک تو مٹ سکتی ہے لیکن جو ’’روح پر دستک‘‘ نہیں دے سکتی۔ لیکن اس کا دکھ یہ نہیں ہے کہ اس کے پاس جو عورت ہے وہ آٹے کی عورت ہے۔ اس کا دکھ یہ ہے کہ وہ زمین کو کھر چتا رہتا ہے۔ پہلا راوی کہتا ہے، ’’نئے دکھ کی شدید باڑھ میں میرے قریب آنے والا ایک دم فاصلے پر ہوگیا تھا... دکھ نے تو ایک ہی ہلے میں ہمیں قریب کردیا تھا... وہ سنتا رہتا اور جب اسے دھیا ن بڑھانا ہوتا تو زمین کھرچنے لگتا تھا۔‘‘ وہ زمین کھرچتا ہے، شاید اس لئے کہ زمین ایک دن سونا اگل دے گی، یا شاید اس لئے کہ وہ زمین میں سوراخ کر کے پاتال تک پہنچ جائے گا جہاں منیبہ اس کا انتظار کررہی ہے۔ لیکن اسے پتہ چلتا ہے کہ ’’مٹی تو مٹی ہے، یہ اپنی کہاں رہتی ہے۔‘‘محمد حمید شاہد اپنے افسانوں میں ایک نہایت ذی ہوش اور حساس قصہ گو معلوم ہوتے ہیں۔ بظاہر پیچیدگی کے باوجود (مثلاً ان کا زیر نظر ناول، اور ’’شب خون‘‘ ۳۹۲تا۹۹۲میں مطبوعہ ان کا افسانہ ’’بدن برزخ‘‘) ان کے بیانیہ میں یہ وصف ہے کہ ہم قصہ گو سے دور نہیں ہوتے، حالانکہ جدید افسانے میں افسانہ نگار بالکل تنہا اپنی بات کہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ (اسی بات کو باختن نے یوں کہا تھا کہ فکشن نگار سے بڑھ کر دنیا میں کوئی تنہا نہیں، کیوںکہ اسے کچھ نہیں معلوم کہ اس کا افسانہ کون پڑھ رہا ہے اور کوئی اسے پڑھ بھی رہا ہے کہ نہیں۔) اسی وجہ سے جدید افسانہ نگار اپنے قاری کے لئے کتابی تو وجود رکھتا ہے لیکن زندہ وجود نہیں رکھتا۔ محمد حمید شاہد اس مخمصے سے نکلنا چاہتے ہیں اور شاید اسی لئے وہ اپنے بیانیے میں قصہ گوئی، یا کسی واقع شدہ بات کے بارے میں ہمیں مطلع کرنے کا انداز جگہ جگہ اختیار کرتے ہیں۔محمد حمید شاہد کی دوسری بڑی صفت ان کے موضوعات کا تنوع ہے۔ اس لحاظ سے وہ منشا یاد سے کچھ کچھ مشابہ لگتے ہیں لیکن محمد حمید شاہد کے سروکار سماجی سے زیادہ سیاسی ہیں، حتی کہ وہ اپنے ماحولیاتی افسانوں میں بھی کچھ سیاسی پہلو پیدا کر لیتے ہیں۔ ’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس میں مشرقی پاکستان/بنگلہ دیش کی حقیقت سے آنکھ ملانے کی کوشش رومان اور تشدد کو یکجا کر دیتی ہے۔ اسے محمد حمید شاہد کی بہت بڑی کامیابی سمجھنا چاہئے کہ وہ ایسے موضوع کو بھی اپنے بیانیہ میں بے تکلف لے آتے ہیں جس کے بارے میں زیادہ تر افسانہ نگارگو مگو میں مبتلا ہوں گے کہ فکشن کی سطح پر اس سے کیا معاملہ کیا جائے۔ دکھ شاید سب کچھ سکھا دیتا ہے۔
سبق اردو، دربھنگہ ،بھارت شمارہ 18

حلقہ ارباب ذوق لاہور

لاہور میں اردو افسانہ کے حوالے سے خصوصی اجلاس
آگے خاموشی ہے‘ ....کیس ہسٹری سے باہر قتل....‘ دائرہ
پاک ٹی ہاﺅس لاہور میںمنشایاد‘محمد حمید شاہد اور عاصم بٹ افسانے پیش کئے
اس خصوصی اجلاس کا اہتمام حلقہ ارباب ذوق لاہورنے کیا تھا
لاہور (۵۲ دسمبر ۵۰۰۲) حلقہ ارباب ذوق لاہور کے زیر اہتمام ایک خصوصی اجلاس پاک ٹی ہاﺅس میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں اسلام آباد/راولپنڈی سے خصوصی طور پرمنشایاداور عاصم بٹ نے شرکت کی اور اپنے تازہ افسانے پیش کیے۔اس موقع پر پڑھے جانے والے افسانے :
منشایاد: آگے خاموشی ہے
محمد حمید شاہد: کیس ہسٹری سے باہر قتل
عاصم بٹ : دائرہ
رشید امجد اور یونس جاوید کو بھی اس اجلاس میں شرکت کرنا تھی جو بوجوہ نہ آسکے۔
افسانوں پر بحث کے دورآن شرکاءاجلاس نے کہا کہ اب افسانے کی زبان بدل چکی ہے ‘ عصری سانحات کو فکشن بنا ڈالنا بھی اب ممکن ہو گیا ہے ۔ اور یہ کہ کہانی اب ایک سے زائد سطحوں پر اپنے معنی بیان کرتی ہے ۔ اس اجلاس میں کراچی سے آئے ہوئے مہمان شاعر سلمان صدیقی نے بھی اپنا کلام سنایا۔ اجلاس کی صدارت منشایاد نے کی ۔ انہوں نے صدارتی خطبہ میں حلقہ ارباب لاہور کا اس خصوصی اجلاس کے لیے شکریہ ادا کیا۔

Wednesday, February 11, 2009



محمد حمید شاہد اردو کے نمایاں افسانہ نگار ، ناول نگار اور نقادہیں۔ 1957 میں پنڈی گھیب ضلع اٹک، پنجاب، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے بہ قول سید ضمیر جعفری بستانیت کے فاضل ہوئے۔ایک بنکار کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ادبی زندگی کاآغاز یونیورسٹی کے زمانے ہی سے ہو چکا تھا۔ یونیورسٹی کے مجلہ “ کشت نو“ کے مدیر رہے۔ پہلی کتاب اسی زمانے میں لاہور سے شائع ہوئی۔ پہلے پہل انشائے لکھے مگر جلد ہی افسانہ نگاری کی طرف آ گئے اور بند آنکھوں سے پرے کی اشاعت کے بعد اردو دنیا کی توجہ پا لی- افسانوں کے مجموعوں'' بند آنکھوں سے پرے'',''جنم جہنم'' اور ''مرگ زار'' کے بعد محمد حمید شاہد کا شمار اسی کی دہائی کے نمایاں ترین افسانہ نگاروں میں ہونے لگا۔ شاہد کے ناول “ مٹی آدم کھاتی ہے“ اور افسانوں“ سورگ میں سور“ ، “ مرگ زار“ اور “ برف کا گھونسلا “ کو بہت نمایاں مقام دیا جاتا ہے۔

محمدحمید شاہد کے بات کہنے کا انداز ایسا ہے کہ وہ پہنچ جاتی ہے ۔ اس کے بیان میں سادگی اور خلوص ہے‘ خیالات میں ندرت ہے۔ اس کا نقطہ نظر مثبت ہے اور اس کی سچائیوں میں رنگ ہے -رس ہے ۔ ممتاز مفتی
محمد حمید شاہد نے سچی اور کھری زندگی کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا ہے ۔وہ کہانی کہنے کے فن پر حیرت انگیز طور پر حاوی ہے ۔ان افسانوں کا ایک ایک کردار ایک ایک لاکھ انسانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔محمد حمید شاہد نے اپنے افسانوں کو لمحہ رواں کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی تاریخ کا درجہ بھی دے دیا ہے۔ احمد ندیم قاسمی
محمد حمید شاہد نے بھر پور اظہار اور اٹھتی ابھرتی اور پھیلتی لہروں کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔ یہ افسانے محمد حمید شاہد کے خوب صورت ہمہ جہتی انداز اور فکر کا آئینہ دار ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی
محمد حمید شاہد ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کے خوگر بھی ہیں اور دل کی آنکھ کھولنے میں کوشاں بھی۔ وہ عصری زندگی کے مصائب پر یوں قلم اٹھاتے ہیں کہ عصریت اور ابدیت میں ماں بیٹی کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے ۔ فتح محمد ملک
محمدحمید شاہد بلا شبہ خالدہ حسین‘ منشایاد‘اسد محمد خان‘مظہرالاسلام ‘ رشید امجد اور احمد جاوید والی نسل کے بعد اُردو افسانے کے منظر نامے میں ظہور کرنے والی پیڑھی میں ایک بہت معتبر اور نہایت لائق توجہ افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ افتخار عارف

حمید شاہد کے فن ِافسانہ نگاری کی اہم خوبی ہے کہ وہ کسی ایک خاص ڈکشن کے اسیر نہیں ہوئے اور صاحبِ اسلوب بننے کی کوشش میں خود کو محدود نہیں کیا۔ وہ خیال ،مواد اورموضوع کے ساتھ تکنیک اور اسلوب میں ضرورت کے مطابق تبدیلی پیدا کرلیتے ہیں۔ وہ ہررنگ کی کہانی لکھنے پرقادرہیں۔میںسمجھتاہوں کہ افسانے کی نئی اور موجودہ نسل میں حمیدشاہد کانام اورمقام بہت ہی معتبرہے- منشایاد
دیہی دانش اور علاقائی پس منظرکی خوشبو جدید نقطہ نظرمےں آمیز ہو کر حمید شاہد کے افسانوں میں ایسے اسرار کا روشن ہا لہ بناتی ہے جسے اس کی انفرادیت کہا جانا چاہیے۔ رشید امجد