Saturday, February 28, 2009

ادب ستارہ: محمد حمید شاہد













رپورٹ =خلیق الرحمن

ادب ستارہ: محمد حمید شاہد
حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کی ایک تقریب

معروف افسانہ نگار اور نقاد محمد حمید شاہد کے فن اور شخصیت کے حوالے سے ”ادب ستارہ“ سلسلے کی ایک خصوصی نشست حلقہ اربابِ ذوق اسلام آباد کے تحت اکادمی ادبیات کے رائیٹرز ہاﺅس میں منعقد ہوئی جس میں راولپنڈی /اسلام آباد کے شاعروں اور ادیبوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ اس خصوصی پروگرام کی صدارت منشایاد نے کی جب کہ مہمان خاص ضیا جالندھری تھے ۔ پروگرام کی ابتداءمیں ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا مضمون پڑھا گیا۔مضمون حلقہ کے سیکرٹری اصغر عابد نے پیش کیا۔ یہ نشست غیر معمولی طوالت اختیار کرگئی اور صاحب شام کے فن وشخصیت پر بھرپور گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے مضمون سے اقتباس اور شرکا ءکی گفتگو کا خلاصہ :
ڈاکٹر ستیہ پال آنند : محمد حمید شاہد نے اپنے افسانوں میں روایتی افسانے کی کوتاہ دستی اور تنگ دامانی سے تجاوز کرنے کے بعد مصنف نے جس تیکنیک پر تکیہ کیا ہے وہ حکایتی اسلوب نگارش ہے ۔اساطیر کی بازیافت اور عہد حاضر میں ان کی پیوستگی ہے ۔ سامی ‘یونانی‘ رومی اور ہندوی دیومالائی حکایتوں ‘بودھی بصیرت کی جاتک کتھاﺅں اور اسلامی تاریخ ‘لے جنڈ اور قصص‘ ہندایرانی تہذیبوں کے انسلاک سے معرض وجود میں آئی ہوئی قصہ گوئی اور قصہ خوانی کی مختلف تیکنیکس اور اسالیب‘ عوامی کلچر میں بس جانے والی لوک کہانیاں‘ ان کی باز یافت اور ذو آفرینی پر استوار حمید شاہد کی کہانیاں یقینا اردو افسانے کی معنوی سطحیت سے معنیاتی تہہ داری کی طرف مراجعت کرتی ہیں ۔ وہ اجتماعی لاشعور میں خوابیدہ داستانوں کو ڈھونڈ نکالتے ہوئے اپنی ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا ہالہ ان پر مرکوز کرتے ہیں۔ انہیں استعاراتی تفاعل کا ہنر آتا ہے۔ وہ معنیاتی انسکلات پر قدرت رکھتے ہیں اور علامتی مفاہیم کا فن جانتے ہیں ۔
علی محمد فرشی: ڈاکٹر آنند نے اسلوبیاتی سطح پر حمید شاہد کے افسانوں کا جائزہ لیا ہے جب کہ ان کے ہاں موضوعاتی سطح پر بھی بڑا تنوع ملتا ہے ۔ ان کے افسانوں کے پہلے مجموعے ”بند آنکھوں سے پرے“ میں ترقی پسندانہ روایت اور سماجی حقیقت نگاری کی روایت سی جڑی ہوئی کہانیوں قدرے حاوی ہیں جبکہ دوسرے مجموعے ”جنم جہنم “ میں افسانے کے جدید تر رجحان والے افسانے‘جن میں علامت اور تجرید کو بھی برتا گیا زیادہ ہیں ۔ پہلے مجموعے میں اگر ”برف کا گھونسلا “ جیسے افسانے نمائندہ بنتے ہیں تو دوسرے میں ”جنم جہنم “ اور نئی الیکٹرا “ جیسے ۔ ان دونوں کتابوں کے بعد حمید شاہد نے جو مسلسل افسانے دیئے اور ملک کے اہم ادبی جریدوں میں شائع ہوتے رہے ان میں ایک نئے اسلوب کی بِنا ڈالی ہے ۔ روایت اور جدیدیت کے اسالب یہاں آکر باہم آمیخت ہوگئے ہیں افسانہ اپنے کہانی پن کو مجروع بھی نہیں ہونے دیتا اور ایک برتر سطح پر علامت بھی بن جاتا ہے ۔ موضوعاتی سطح پر دیکھیں تو اپنی جڑوں سے کٹنا‘ دیہاتوں سے شہروں کو منتقلی‘ شہری زندگی میں ایڈجیسٹ نہ ہونا سے لے کرمعاشرتی اور سماجی اکھاڑ پچھاڑ جیسے موضوعات کو خوبی سے برتا گیا ہے اور اس ضمن میں ” تکلے کا گھاﺅ“ اور” معزول“ ایسے افسانی ہیں جنہیں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ۔ عورت اور مرد کے درمیان معاملات کو بھی حمید شاہد نے عورت کے دکھوں کے قریب رہ کر لکھا ہے ”آٹھوں گانٹھ کمیت“ اور ”رکی ہوئی زندگی “ پیش نظر رہے ۔ نائن الیون کے بعد کے افسانوں مثلا ”لوتھ“ ”گانٹھ“ اور سورگ میں سور“ میںحمید شاہد کا فن اپنے نئے اسلوب میں عروج پر نظر آتا ہے جو انہیں اپنے ہم عصروں میں الگ سے شناخت دیتا ہے۔
پروفیسر جمیل آذر: محمد حمید شاہدکی افسانے پڑھنے میں بہت دلچسپ ہوتے ہیں ۔ ان کے ہاں سیاسی ‘سماجی اور معاشرتی شعور بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے ۔ان کے افسانے کا سفر ” برف کا گھونسلا “ سے شروع ہوت ہے اور ”سورگ میں سور“ جیسے بڑے افسانے تک پہنچتا ہے۔ بے شک اس افسانے کو ہم منٹو‘ بیدی اور انتظار حسین کے ایسے ہی افسانوں کے مقابلے میں رکھ سکتے ہیں ۔اس افسانے میں بھیڑ بکریوں‘ کتوں اور سوروں کی کہانی جس طرح آخر میں ایک علامت کا روپ دھارتی ہے اس سے پڑھنے والے کے بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ واقعی حمید شاہد بڑا فن کار ہے ۔ حمید شاہد نے بھی منشایاد کی طرح افسانے کو لایعنی جدیدیت کی فضا سے بچایا ہے ۔
پروفیسر اکبر حمیدی: حمید شاہد شخصی سطح پر بھی خوبیوں کے مالک ہیں ‘تعاون کرنے والے اور اپنی کمیٹمنٹس کو نبھانے والے ۔ ان کے افسانے تواتر سے ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔مجھے ان کے افسانے بہت پسند ہیں ۔انہیں سماجی حقیقت پسندی کی کہانیاں کہا جاسکتا ہے ۔اپنے ہم عصروں میں وہ نمایاں ترین افسانہ نگار ہیں ۔جہاں تک ان کی تنقید کا تعلق ہے تو اس ضمن میں وہ شدت پسند واقع ہوئے ہیں اور شاید اپنی بات منوانے اور اپنی راہ صاف کرنے کے لیے ایسا ضروری بھی ہوتا ہے۔
منظر نقوی: شخصی حوالے سے حمید شاہد نفیس ترین اور تخلیقی طور پر عمدہ اور فعال تخلیق کار ہیں ۔ فنی سطح پر ان کے تین حوالے بنتے ہیں :افسانہ ‘تنقید اور تراجم۔ افسانوں پر بات دوستوں نے کی میں تراجم کے حوالے سے ان کی کتاب ”سمندر اور سمندر“ کی طرف توجہ دلاﺅں گا اور کہنا چاہوں گا کہ ترجمے کے لیے تخلیقات کے چناﺅ سے حمید شاہد کے اعلی تنقیدی قور تخلیقی ذوق کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ ان کے اندر کا شاعر ان تراجم میں بھی نظر آتا ہے ۔
رضوانہ سیدعلی: حمید شا ہد کے ا فسانے پڑھنے میں دلچسپ مگر موضوعات کے حوالے سے مشکل ہوتے ہیں ۔انہوں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی درست سمت میں راہنمائی کی ہے ۔
اصغر عابد: حمید شاہد نے گزشتہ دہائی میں افسانے اور تنقید کی حوالے سے اپنا مقام بنایا اور اس کے لیے وہ تخلیقی سطح پر بہت فعال رہے ۔بظاہر خاموش طبع اور ٹھنڈے مزاج کے ہیں مگر تخلیقی طور پر بہت سرگرم ۔ ان کے ہاں ہر بار بڑے موضوعات سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے بیانیہ اور علامتی ہر دو طرح کے افسانے لکھے اور پھر ایک ہی فن پارے میں ان دو کو ایک ساتھ برتاجس کے حوالے سے بہت سے مباحث قائم ہوئے۔ حمید شاہد کی تنقید کو شدت پسند کہا گیا جب کہ میں سمجھتا ہوں کہ تنقید کے باب میں ان کا رویہ نہایت متوازن ہے ۔ادبی مجالس میں بھی ان کی تنقید اور تجزیے اہم ہوتے ہیں ۔ایسی تنقید کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے کہ یہ مصلحت پسندی سے آزاد ہوتی ہے ۔
فرحین چوہدری : حمید شاہد کو میں بارہ پندرہ سالوں سے جانتی ہوں ۔وہ انفیس اور اچھی شخصیت کے مالک ہیں ہی ایک بہت عمدہ تخلیق کار بھی ہیں ۔ ان کی تنقید ہمیشہ حقیقت پسندانہ ہوتی ہے ۔جہاں تک ان کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے تو چاہے وہ بیانیہ کہانی ہو یا علامتی وہ صرف مقامی نہیں رہتی بلکہ اپنے فکری حوالے سے آفاقی ہو جاتی ہے۔ ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے قاری تہذیبی اور تاریخی سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہے ۔ان کی تخلیقات کے مطالعے میں عالمی ادب کے مطالعے کا سا لطف ملتا ہے ۔
امتیاز ا ے قریشی: حمید شاہد کی کہانیاں اسلوبیاتی سطح پر بہت عمدہ ہوتی ہیں ۔ فکری سطح پر بہت گہری کہ عام قاری پورے مفہوم کو نہیں پا سکتا مگر زبان اس خوب سے لکھتے ہیں کہ انہیں دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے ۔ ان کے ہاں زبان کا استعمال اور جملے کی ساخت اس قدر کمال کی ہوتی ہے کہ ہم اسی طرح کی جملے لکھنا چاہتے ہیں ۔
پروفیسرسلمان باسط: میں سمجھتا ہوں کہ حمید شاہد کے پانچ شیڈز بنتے ہیں ۔ افسانہ ‘ تنقید‘ سیرت نگاری‘ نثم نگاری اور شخصیت کا حسن ۔ سیرت کے حوالے سے انہوں نے ”پیکرجمیل “ جیسی کتاب دی ۔ باقی حوالوں سے آپ نے بات کی ۔ شخصی اور تخلیقی سطح پر وہ یوں قد آور ہیں کہ ہر دو سطحوں پر وہ اخلاص کو مقدم رکھتے ہیں ۔
علی محمد فرشی: ادب میں حمید شاہد تخلیق کار سے زیادہ تخلیق کو اہمیت دیتے ہیں جس سے ان کی شدت پسندی کی طرف دھیان جاتا ہے ۔ یوں توانہوں نے نظمیں بھی لکھیں جنہیں وہ نثمیں کہتے ہیں اور شروع میں انشائیے بھی لکھے جن کی بابت میں کچھ زیادہ نہیں جانتا۔ اب وہ تنقید بھی لکھتے ہیں لیکن ان کی اصل شناخت افسانہ ہی ہے ۔
وقار بن الہی: حمید شاہد کا افسانہ ”سورگ میں سور “ جب پہلی مرتبہ رابطہ کے جلسے میں پڑھا گیا تو وہ اتنادلچسپ اور چونکا دینے والا تھا کہ اس پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی ۔ ان کے افسانے اسی مباحث کو چھیڑتے ہیں ۔
انصر علی انصر: حمید شاہد جملے کے معیار کو قائم رکھتے ہیں اور کمزور جملے کو نہ تو اپنے افسانوں میں اور نہ ہی کسی کے دوسرے کے افسانے میں برداشت کر تے ہیں۔
احمد جاوید: حمید شاہد کا کام بہت سمتوں میں ہے لیکن ان کی اصل شناخت افسانہ ہی ہے اور بلاشبہ وہ ایک سنجیدہ افسانہ نگار ہیں ۔ ان کا اسلوب منفرد ہے۔ ”جنم جہنم“ میں جو انہوں نے نظم کی لائنوں میں لکھنے کا تجربہ کیا ہے یا پھر کچھ اور افسانوں میں دوسری تیکنیکس۔ وہ تجربے تو ہوچکے ‘حمید شاہد نے جو اپنا اسلوب بنایا ہے انہیں اسی سے وابستہ رہنا چاہیے ۔جدید افسانے کی تحریک کے بعد نمایاں ہونے والے اپنے ہم عصروں میںوہ اہم تر افسانہ نگار ہیں ۔ جہاں تک افسانوں میں بلندفکری کی بات ہے تو اس کے پیچھے بھاگا نہیں جاتا کہانی اپنی فکر خود بناتی ہے ۔
رفیق سند یلوی: حمید شاہد نے بہت لکھا مگر اس کے باوجود ایک معیار برقرار رکھا ۔ کتابوں پر ان کے تبصرے سینکڑوں میں ہیں ۔ بظاہر ان سب میں معیار کو برقرار رکھنا آسان نہیں ۔حمید شاہد کی کہانیاں نیم دلچسپ ہوتی ہیں تاہم ایک آگہی ان کہانیوں میں ضرور ہوتی ہے ۔ اب وہ اپنا اسلوب اور ڈھنگ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ جہاں تک پنجابی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے کا معاملہ ہے تو اسے میں ہضم نہیں کر سکایہ چیز لسانی سطح پر کس حد تک قابل قبول ہوسکتی ہے اسے دیکھا جانا چاہیے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حمید شاہد کے افسانوں کوآج پورے افسانوی پس منظر میں رکھ کر دیکھا جائے ۔ ان کے دونوں کتابوں کے بعد کے افسانوں کو ان کے فکشن کے سفر میں ایک نئی سیڑھی کہا جاسکتا ہے ۔
پروفیسر جلیل عالی : حمید شاہد کے ہاں کافی لکھنے کے بعد بہت نکھار پیدا ہوا ہے ۔ ان کا اسلوب اپنے موضوع اور ان کا موضوع اسلوب کی تلاش میں ہوتا ہے ۔ زبان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا زخیرہ الفاظ بہت وسیع ہے اور اس کا ثبوت ان کا زیر تحریر ناول ہے جس کے ابواب ہم حلقے کے ان جلسوں میں سن چکے ہیں ۔ یہ ناول تہذیبی اور ثقافتی سطح پر باطنی حقیقتوں کو پیش کرتا ہے ۔
پروفیسر اقبال آفاقی : حمید شاہد کے ہاں افسانے کی ٹریٹمنٹ کے حوالے سے متضاد رویے ملتے ہیں تاہم ایک بات واضح ہے کہ ان کے ہاں کہانی کی شناخت موجود ہے۔ حمید شاہد تپسیا کرنے والا فن کار ہے ۔ میری نظر میں حمید شاہد افسانے کی تیسری جنریشن کے سب سے قد آور افسانہ نگار ہیں ۔۔ ان کی شخصیت میں ایک اچھے انسان اور قلم کار کے سارے عناصر موجود ہیں جو انہیں بہت بڑا قلم کار بنانے میں مددگار ہورہے ہیں ۔ تاہم میری خواہش ہے کہ وہ تنقید کے بجائے افسانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔
اختر عثمان : حمید شاہد نے ایک تقریب میں میرے اور اپنے تعلق کو ”لَوّاینڈ ہیٹ“ کا تعلق قرار دیا تھا جب کہ میں اسے واٹر شیڈ جیسا سمجھتا ہوں ۔ ان کے اندر جتنے امکانات بکھرے ہوئے ہیں شاید وہ خود بھی ان سے آگاہ نہیں ہیں ۔مختلف رسالوں اور ادھر ادھر ان کی بکھری ہوئی تحریروں کو پڑھتا ہوں تو جھنجھلاہٹ ہوتی ہے کہ تنقیدمیں وہ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔ ان کے تبصرے زیادہ ہوتے ہیں جن سے کوئی تنقیدی تھیوری سامنے نہیں آتی ۔ تاہم حلقے کے جلسوں میں ان کی تنقید اور تجزیے ایک ذمہ دار اور سوچنے والے تخلیق کار کے طور پر لیے جاسکتے ہیں اور اگر انہیں کسی صورت ‘تنقیدی شکل میں شائع کیا جائے تو ان کی بہت اہمیت ہوگی ۔جہاں تک افسانوں کا تعلق ہے تو ان کے چار افسانے بہت پسند ہیں اور یہ ”برشور“ ” لوتھ“ ” نئی الیکٹرا“ اور ” سورگ میں سور “ ہیں ۔ ان کے افسانے لسانی حوالے سے آگے بڑھتے ہیں۔ ان کے ناول میں زبان کے معاملے میں ڈپٹی نذیر احمد والی دقت پسندی کا رویہ ملتا ہے ۔
ضیاءجالندھری : جہاں تک زیادہ لکھنے اور معیار برقرار رکھنے کا معاملہ ہے تو اس ضمن میں دستو ئیفسکی کی مثال سامنے رکھنی چاہیے ۔وہ زیادہ لکھنے کے باوجود عمدہ تخلیق کار تھا۔ جہاں تک اسلوب کی بات ہے ‘یہ لکھنے والے کے ہاں خود بخود بن جاتا ہے اور ایک دفعہ بن جائے تو بدلتا نہیں ہے ۔ پنجابی لفظوں کے ہضم نہ ہونے کے حوالے سے میں کہوں گا کہ جو لفظ ضرورت کے مقام پرآئے وہ دوسری زبان کا نہیں رہتا اسی زبان کا ہوجاتا ہے ۔ حمید شاہد کی تنقید کی کتاب ” ادبی تنازعات“ میری نظر سے گزری ہے اور میں نے بطور خاص نثم کے حوالے سے ان کے مضامین کو پڑھا ہے ۔ میں نثم یا نثری نظم کا حامی نہیں ہوں اور اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ سنانا چاہتا ہوں کہ ایک مرتبہ ن م راشد بھی نثری نظمیں لکھ کر ہمیں پڑھنے کو دیں ۔ ہم متاثر نہ ہوئے تو کہنے لگے کہ ان میں باطنی طور پر ایک ردھم موجود ہے جب میں پڑھوںگا تو آپ کو بھی وہ محسوس ہوجائے گا ۔ ن م راشد نے انہیں پڑھا بھی مگر ہمیں وہ ردھم محسوس نہیں ہو ا۔ بعد میں راشد نے ایسی نظمیں نہ لکھیں ۔ تنقید کا معاملہ یہ ہے کہ پہلے سے طے کرکے کسی کتاب کو نہیں پڑھنا چاہیئے کہ ہمیں کیا تنقید کرنی ہے اپنے نقطہ نظر کو الگ رکھ کر پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ تخلیق کار نے اپنا معیار قائم کیا ہے یا نہیں ۔
منشایاد : اگرچہ حمید شاہد کے بہت سے تخلیقی پہلو ہیں لیکن ان کا بنیادی حوالہ فکشن ہے ۔ حمید شاہد نے تنقید لکھی مگر تنقد نگار ہونے کا دعوی نہیں کیا ۔ حمید شاہد ادبی اور تخلیقی سطح پر بہت سرگرم ہیں اور ہمیں بھی فعال کیا ہے۔ان کے تنقیدی مضامین بھی اسی ذیل میں آتے ہیں ۔ تاہم وہ اپنی فکر اور نظریات کے معاملے کسی لیت ولعل سے کام نہیں لیتے اور نہ ہی کہیں کمپرومائیز کرتے ہیں۔ افسانے کے معاملے میں وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر لکھتے ہیں ۔ ان کے زیر تحریر ناول کا معاملہ یہ ہے کہ جب اس کے کچھ ابواب حلقے کے جلسوں میں سنے تو میں نے کہہ دیا تھا کہ اس کا معیار اتنا بلند ہے اسے قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا ۔ اس کی زبان وبیاں سے خوف آنے لگا تھا کہ کہانی کو آگے بھی تو بڑھانا ہوتاہے۔ حمید شاہد کے ہاں تخلیقی بے قراری ہے اور یہ ہر جینوئن لکھنے والے کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔ ان کی افسانہ نگاری میں اسلوب اور کہانی پن کی بابت کہنا چاہوںگا کہ ان کا اسلوب تبدیل نہیں ہوتا ہر کہانی اور ہر افسانہ ایک الگ انداز کا تقاضہ کرتا ہے اور حمید شاہد یہ بات جانتے ہیں ۔ان کی کہانی ” منجھلی“ اسلوبیاتی ہوالے سے بیانیہ اور نفسیاتی کہی جاسکتی ہے تو جزیات کو سلیقے سے لکھنے کی مثال ”سورگ میں سور “ سے مل جاتی ہے ۔ یہ بظاہر بیانیہ کہانی ہے مگر ٹریٹمنٹ ایسی ہے کہ آخر میں ایسا علامتی ماحول بنتا ہے کہ کہانی مقامی سے زیادہ آفاقی ہو گئی ہے ۔ حمید شاہد کے افسانوں میں موضوعات اور ٹرےٹمنٹ کا تنوع ہے ۔ ان کے دوسرے اور جونیئر افسانہ نگاروں سے عمدہ تعلقات کی جو تعریف کی گئی ہے تو ہم سب کو اسے مد نظر رکھنا چاہیے ۔ سب تخلیق کاروں کو مجموعی طور پر عمدہ شخصیت کا مظہر ہونا چاہیے ۔بہر حال میں حمید شاہد کے حوالے سے بہت پر امید ہوں اور انہیں بہت آگے تک جانا ہے ۔
٭٭٭