Thursday, February 12, 2009

کردار سازی کا ہنر دیکھتے ہوئے مجھے منٹو یاد آ گیا ظفر اقبال

محمد حمید شاہد کا ناول :مٹی آدم کھاتی ہے

پچھلے دنوں محمد حمید شاہد کا افسانہ “برشور” پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں کردار سازی کا ہنر دیکھتے ہوئے مجھے منٹو یاد آ گیا کہ یہ کام اس سے خاص ہو کر رہ گیا تھا، اور، آپ کو کوئی تحریر پڑھ کر منٹو یاد آجائے تو بلاشبہ یہ کریڈٹ کی بات ہے۔ میری بدقسمتی یا خوش قسمتی یہ ہے کہ فکشن میں زیادہ شوق سے نہیں پڑھتا۔ ناول تو شاید ایک آدھ ہی میں پڑھ سکا ہوں گا کچھ تو درمیان ہی میں چھوڑنا پڑے۔ مثلاً “آگ کا دریا” بڑے شوق سے شروع کیا اور تقریباً نصف پوری محویت سے پڑھ گیا، لیکن جب گوتم کی کہانی ختم ہو گئی اور جدید عہد شروع ہوا تو یہ کچھ پہلے بھی کافی حد تک نظر سے گزر چکا تھا۔ اس لئے آگے نہ جا سکا حالانکہ اسے برصغیر کا سب سے بڑا یا بہت بڑا ناول قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح عبداللہ حسین کا مشہور و معروف ناول “اداس نسلیں ” بھی میں نے کہیں بیچ ہی میں چھوڑ دیا تھا۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فکشن کے معاملے میں میرا ہاتھ کس قدر تنگ ہے۔ البتہ افسانے کی بات اور ہے کہ یہ دس پندرہ منٹ میں ہی نمٹ جاتا ہے اور آپ فارغ۔ جبکہ انتظار حسین کا ناول “آگے سمندر ہے” واحد تصنیف ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے میں پورا پڑھ گیا۔ خاص وجہ شاید یہ بھی ہو کہ اس میں حسب معمول عمدہ نثر کا جادو جاگ رہا ہے کہ انتظار حسین تو اس لحاظ سے واقعی جادو گر ہے، ہاں یاد آیا، مستنصر حسین تارڑ کا ناول “بہاؤ” بھی ان خوش قسمت ادب پاروں میں شامل ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ اور ناول بھی اس فہرست میں ہوں جو مجھے یاد نہیں آ رہے۔اب آپ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر حالات یہ ہیں تو میں اس پر لکھنے کیوں بیٹھ جاتا ہوں ۔ تو، اس کا جواب ایک اور سوال میں موجود ہے کہ میں کالم کیوں لکھتا ہوں ؟ اگر آپ کی تسلی ہو گئی ہو تو اب ہمیں آگے چلنا اور شاہد حمید کے ناول پر بھی بات کرنی چاہئے اگرچہ کالم تنقید کی ذیل میں نہیں آتا لیکن تنقید واحد صنف ادب ہے، اگر اسے ادب کہا جا سکتا ہو، جس میں طبع آزمائی کے لئے کسی کوالیفکیشن کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ یعنی اگر آپ واجبی اردو جانتے ہیں اور جس صنف ادب پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں ، اس کی واجبی شد بدھ آپ کو حاصل ہے تو آپ بڑی آسانی سے نقاد کہلا سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ اب وہ لوگ چکھنے کے لئے بھی دستیاب نہیں جو تنقید کو تخلیق بنا دینے کا ہنر جانتے تھے۔ کیونکہ ہر صنف ادب کی طرح تنقید بھی، میں سمجھتا ہوں ، کہ کم از کم قابل مطالعہ ضرور ہو، جو کہ یہ اکثر اوقات نہیں ہوتی۔ بیشک اسے فکشن کی طرح نہیں پڑھا جانا چاہئے۔پروپیگنڈے کا جدید روسی نظریہ یہ ہے کہ اگر مثلاً کسی فلم میں ، چلتے چلتے، کوئی اشارہ سا ہو جائے تو وہ پوری فلم سے زیادہ کام کر جاتا ہے۔ اسی طرح اس ناول کا ایک کردار ہے، جو نہایت مختصر ہونے کے باوجود ذہن میں دیر تک جگمگاتا رہتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں ناول کے اندر کرداروں کی تعداد جتنی کم ہو گی، وہ اتنا ہی زیادہ اثر انگیز ثابت ہو گا۔ کیونکہ کردار اگر زیادہ بھی ہوں تو ایسے کہ قاری کے ذہن میں محفوظ ہوتے جائیں ۔ یہ نہ ہو کہ کسی کردار سے مانوس ہونے کے لئے آپ کو ناول کے کچھ حصے دوبارہ پڑھنا پڑیں ۔ اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ مرکزی کردار ہی اتنا جاندار ہوتا ہے کہ باقی بہت سے کردار ثانوی حیثیت اختیار کرتے ہوئے اپنا نقش قاری کے ذہن میں زیادہ دیر تک کے لئے قائم نہیں کر پاتے۔میرے ساتھ ایک خرابی یہ بھی ہے کہ میں زیر نظر تصنیف کا تجزیہ نہیں کرتا۔ شاید یہ میرے بس کا روگ بھی نہیں ہوتا کیونکہ میں تو شاعری کا تجزیہ بھی بالعموم نہیں کرتا کیونکہ میرے نزدیک اس چیر پھاڑ سے شاعری کا سارا حسن ہی ماند پڑ جاتا ہے، جبکہ میرے خیال میں شاعری سمجھنے کے لئے کم، اور لطف اندوز ہونے کے لئے زیادہ ہوتی ہے۔ میں تو اپنے کالم میں یہ اطلاع ہی دیتا ہوں کہ فلاں کتاب چھپ گئی ہے، اور مجھے کیسی لگی ہے۔ چنانچہ اس کالم کی افادیت بیشک اتنی سی ہی کیوں نہ ہو کہ محمد شاہد حمید کے شائق بہت سے پڑھنے والوں کو علم ہو جائے گا کہ ناول شائع ہو گیا ہے اور، ایک اخباری کالم سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں کرنی چاہئے۔یہ ناول اس صنف کی عام ٹیکنیک سے ہٹ کر لکھا گیا ہے۔ یعنی یہ صاف سیدھا بیان نہیں ہے اور اس میں شاعری کی طرح کچھ پیچیدگیاں جان بوجھ کر بھی پیدا کی گئی ہیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ واقعات کا بیان اس طرح سے ہے کہ اپنے وقوع کے حساب سے آگے پیچھے کر دیئے گئے ہیں ، اور اس لئے قاری کے لئے ذہنی مشقت کا بھی سامان پیدا کیا گیا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان اس کے پس منظر میں نہ صرف موجود ہے بلکہ اس کا اختتامیہ بھی بنتا ہے۔ چنانچہ اس میں تشدد کا بیان بھی ہے، اور، ڈرامہ بھی۔ شاعری میں تازگی لانے کے لئے جہاں بہت سے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں وہاں فکشن کو مرغوب اور دلچسپ بنانے کے لئے بھی بہت سے طریقے آزمائے جاتے ہیں جن میں سے ایک اس ناول میں بروئے کار لایا گیا ہے۔اس خصوصی ٹیکنیک کے باوجود ناول میں قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے جو کہ کامیاب فکشن کے ایک بنیادی وصف اور شرط کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ اس کے کردار بھی قاری کو متوجہ کئے رکھتے ہیں ۔ زیادہ تر افسانے اور، ناول بھی، چلتے چلتے اپنے منطقی انجام کو خود ہی پہنچتے ہیں اور مصنف کو اس کے لئے کوئی خاص تردد نہیں کرنا پڑتا، نہ ہی وہ یہ طے کر کے افسانہ یا ناول شروع کرتا ہے کہ وہ اسے فلاں انجام سے دو چار کرے گا۔ محمد حمید شاہد کے تین افسانوی مجموعوں کے بعد ان کی طرف سے یہ پہلا ناول آیا ہے جس کا پس سرورق شمس الرحمان فاروقی کے قلم سے ہے اور کوئی سوا سو صفحات کی ضخامت کو محیط یہ ناول”اکادمی بازیافت” کراچی نے پوری آب و تاب سے شائع کیا ہے جس کی قیمت 150 روپے رکھی گئی ہے۔ کتاب آدمی کے نام ہے جو مٹی کی محبت میں دیوانہ ہو چکا ہے۔ مصنف کی دیگر تصانیف معہ زیر طبع کتابوں کی فہرست کے علاوہ موصوف پر اب تک جو کام ہو چکا ہے اور جو اعزازات مصنف نے اب تک حاصل کئے ہیں ، ان کا تعارف بھی شامل