Wednesday, February 11, 2009



محمد حمید شاہد اردو کے نمایاں افسانہ نگار ، ناول نگار اور نقادہیں۔ 1957 میں پنڈی گھیب ضلع اٹک، پنجاب، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے بہ قول سید ضمیر جعفری بستانیت کے فاضل ہوئے۔ایک بنکار کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ادبی زندگی کاآغاز یونیورسٹی کے زمانے ہی سے ہو چکا تھا۔ یونیورسٹی کے مجلہ “ کشت نو“ کے مدیر رہے۔ پہلی کتاب اسی زمانے میں لاہور سے شائع ہوئی۔ پہلے پہل انشائے لکھے مگر جلد ہی افسانہ نگاری کی طرف آ گئے اور بند آنکھوں سے پرے کی اشاعت کے بعد اردو دنیا کی توجہ پا لی- افسانوں کے مجموعوں'' بند آنکھوں سے پرے'',''جنم جہنم'' اور ''مرگ زار'' کے بعد محمد حمید شاہد کا شمار اسی کی دہائی کے نمایاں ترین افسانہ نگاروں میں ہونے لگا۔ شاہد کے ناول “ مٹی آدم کھاتی ہے“ اور افسانوں“ سورگ میں سور“ ، “ مرگ زار“ اور “ برف کا گھونسلا “ کو بہت نمایاں مقام دیا جاتا ہے۔

محمدحمید شاہد کے بات کہنے کا انداز ایسا ہے کہ وہ پہنچ جاتی ہے ۔ اس کے بیان میں سادگی اور خلوص ہے‘ خیالات میں ندرت ہے۔ اس کا نقطہ نظر مثبت ہے اور اس کی سچائیوں میں رنگ ہے -رس ہے ۔ ممتاز مفتی
محمد حمید شاہد نے سچی اور کھری زندگی کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا ہے ۔وہ کہانی کہنے کے فن پر حیرت انگیز طور پر حاوی ہے ۔ان افسانوں کا ایک ایک کردار ایک ایک لاکھ انسانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔محمد حمید شاہد نے اپنے افسانوں کو لمحہ رواں کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی تاریخ کا درجہ بھی دے دیا ہے۔ احمد ندیم قاسمی
محمد حمید شاہد نے بھر پور اظہار اور اٹھتی ابھرتی اور پھیلتی لہروں کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔ یہ افسانے محمد حمید شاہد کے خوب صورت ہمہ جہتی انداز اور فکر کا آئینہ دار ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی
محمد حمید شاہد ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کے خوگر بھی ہیں اور دل کی آنکھ کھولنے میں کوشاں بھی۔ وہ عصری زندگی کے مصائب پر یوں قلم اٹھاتے ہیں کہ عصریت اور ابدیت میں ماں بیٹی کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے ۔ فتح محمد ملک
محمدحمید شاہد بلا شبہ خالدہ حسین‘ منشایاد‘اسد محمد خان‘مظہرالاسلام ‘ رشید امجد اور احمد جاوید والی نسل کے بعد اُردو افسانے کے منظر نامے میں ظہور کرنے والی پیڑھی میں ایک بہت معتبر اور نہایت لائق توجہ افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ افتخار عارف

حمید شاہد کے فن ِافسانہ نگاری کی اہم خوبی ہے کہ وہ کسی ایک خاص ڈکشن کے اسیر نہیں ہوئے اور صاحبِ اسلوب بننے کی کوشش میں خود کو محدود نہیں کیا۔ وہ خیال ،مواد اورموضوع کے ساتھ تکنیک اور اسلوب میں ضرورت کے مطابق تبدیلی پیدا کرلیتے ہیں۔ وہ ہررنگ کی کہانی لکھنے پرقادرہیں۔میںسمجھتاہوں کہ افسانے کی نئی اور موجودہ نسل میں حمیدشاہد کانام اورمقام بہت ہی معتبرہے- منشایاد
دیہی دانش اور علاقائی پس منظرکی خوشبو جدید نقطہ نظرمےں آمیز ہو کر حمید شاہد کے افسانوں میں ایسے اسرار کا روشن ہا لہ بناتی ہے جسے اس کی انفرادیت کہا جانا چاہیے۔ رشید امجد