رپورٹ =خلیق الرحمن
حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کی ایک تقریب
معروف افسانہ نگار اور نقاد محمد حمید شاہد کے فن اور شخصیت کے حوالے سے ”ادب ستارہ“ سلسلے کی ایک خصوصی نشست حلقہ اربابِ ذوق اسلام آباد کے تحت اکادمی ادبیات کے رائیٹرز

ڈاکٹر ستیہ پال آنن

علی محمد فرشی: ڈاکٹر آنند نے اسلوبیاتی سطح پر حمید شاہد کے افسانوں کا جائزہ لیا ہے جب کہ ان کے ہاں موضوعاتی سطح پر بھی بڑا تنوع ملتا ہے ۔ ان کے افسانوں کے پہلے مجموعے ”بند آنکھوں سے پرے“ میں ترقی پسندانہ روایت
پروفیسر جمیل آذر: محمد حمید شاہدکی افسانے پڑھنے میں بہت دلچسپ ہوتے ہیں ۔ ان کے ہاں سیاسی ‘سماجی اور معاشرتی شعور بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے ۔ان کے افسانے کا سفر ” برف کا گھونسلا “ سے شروع ہوت ہے اور ”سورگ میں سور“ جیسے بڑے افسانے تک پہنچتا ہے۔ بے شک اس افسانے کو ہم منٹو‘ بیدی اور انتظار حسین کے ایسے ہی افسانوں کے مقابلے میں رکھ سکتے ہیں ۔اس افسانے میں بھیڑ بکریوں‘ کتوں اور سوروں کی کہانی جس طرح آخر میں ایک علامت کا روپ دھارتی ہے اس سے پڑھنے والے کے بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ واقعی حمید شاہد بڑا فن کار ہے ۔ حمید شاہد نے بھی منشایاد کی طرح افسانے کو لایعنی جدیدیت کی فضا سے بچایا ہے ۔
پروفیسر اکبر حمیدی: حمید شاہد شخصی سطح پر بھی خوبیوں کے مالک ہیں ‘تعاون کرنے والے اور اپنی کمیٹمنٹس کو نبھانے والے ۔ ان کے افسانے تواتر سے ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔مجھے ان کے افسانے بہت پسند ہیں ۔انہیں سماجی حقیقت پسندی کی کہانیاں کہا جاسکتا ہے ۔اپنے ہم عصروں میں وہ نمایاں ترین افسانہ نگار ہیں ۔جہاں تک ان کی تنقید کا تعلق ہے تو اس ضمن میں وہ شدت پسند واقع ہوئے ہیں اور شاید اپنی بات منوانے اور اپنی راہ صاف کرنے کے لیے ایسا ضروری بھی ہوتا ہے۔
منظر نقوی: شخصی حوالے سے حمید شاہد نفیس ترین اور تخلیقی طور پر عمدہ اور فعال تخلیق کار ہیں ۔ فنی سطح پر ان کے تین حوالے بنتے ہیں :افسانہ ‘تنقید اور تراجم۔ افسانوں پر بات دوستوں نے کی میں تراجم کے حوالے سے ان کی کتاب ”سمندر اور سمندر“ کی طرف توجہ دلاﺅں گا اور کہنا چاہوں گا کہ ترجمے کے لیے تخلیقات کے چناﺅ سے حمید شاہد کے اعلی تنقیدی قور تخلیقی ذوق کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ ان کے اندر کا شاعر ان تراجم میں بھی نظر آتا ہے ۔
رضوانہ سیدعلی: حمید شا ہد کے ا فسانے پڑھنے میں دلچسپ مگر موضوعات کے حوالے سے مشکل ہوتے ہیں ۔انہوں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی درست سمت میں راہنمائی کی ہے ۔
اصغر عابد: حمید شاہد نے گزشتہ دہائی میں افسانے اور تنقید کی حوالے سے اپنا مقام بنایا اور اس کے لیے وہ تخلیقی سطح پر بہت فعال رہے ۔بظاہر خاموش طبع اور ٹھنڈے مزاج کے ہیں مگر تخلیقی طور پر بہت سرگرم ۔ ان کے ہاں ہر بار بڑے موضوعات سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے بیانیہ اور علامتی ہر دو طرح کے افسانے لکھے اور پھر ایک ہی فن پارے میں ان دو کو ایک ساتھ برتاجس کے حوالے سے بہت سے مباحث قائم ہوئے۔ حمید شاہد کی تنقید کو شدت پسند کہا گیا جب کہ میں سمجھتا ہوں کہ تنقید کے باب میں ان کا رویہ نہایت متوازن ہے ۔ادبی مجالس میں بھی ان کی تنقید اور تجزیے اہم ہوتے ہیں ۔ایسی تنقید کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے کہ یہ مصلحت پسندی سے آزاد ہوتی ہے ۔
فرحین چوہدری : حمید شاہد کو میں بارہ پندرہ سالوں سے جانتی ہوں ۔وہ انفیس اور اچھی شخصیت کے مالک ہیں ہی ایک بہت عمدہ تخلیق کار بھی ہیں ۔ ان کی تنقید ہمیشہ حقیقت پسندانہ ہوتی ہے ۔جہاں تک ان کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے تو چاہے وہ بیانیہ کہانی ہو یا علامتی وہ صرف مقامی نہیں رہتی بلکہ اپنے فکری حوالے سے آفاقی ہو جاتی ہے۔ ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے قاری تہذیبی اور تاریخی سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہے ۔ان کی تخلیقات کے مطالعے میں عالمی ادب کے مطالعے کا سا لطف ملتا ہے ۔
امتیاز ا ے قریشی: حمید شاہد کی کہانیاں اسلوبیاتی سطح پر بہت عمدہ ہوتی ہیں ۔ فکری سطح پر بہت گہری کہ عام قاری پورے مفہوم کو نہیں پا سکتا مگر زبان اس خوب سے لکھتے ہیں کہ انہیں دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے ۔ ان کے ہاں زبان کا استعمال اور جملے کی ساخت اس قدر کمال کی ہوتی ہے کہ ہم اسی طرح کی جملے لکھنا چاہتے ہیں ۔
پروفیسرسلمان باسط: میں سمجھتا ہوں کہ حمید شاہد کے پانچ شیڈز بنتے ہیں ۔ افسانہ ‘ تنقید‘ سیرت نگاری‘ نثم نگاری اور شخصیت کا حسن ۔ سیرت کے حوالے سے انہوں نے ”پیکرجمیل “ جیسی کتاب دی ۔ باقی حوالوں سے آپ نے بات کی ۔ شخصی اور تخلیقی سطح پر وہ یوں قد آور ہیں کہ ہر دو سطحوں پر وہ اخلاص کو مقدم رکھتے ہیں ۔
علی محمد فرشی: ادب میں حمید شاہد تخلیق کار سے زیادہ تخلیق کو اہمیت دیتے ہیں جس سے ان کی شدت پسندی کی طرف دھیان جاتا ہے ۔ یوں توانہوں نے نظمیں بھی لکھیں جنہیں وہ نثمیں کہتے ہیں اور شروع میں انشائیے بھی لکھے جن کی بابت میں کچھ زیادہ نہیں جانتا۔ اب وہ تنقید بھی لکھتے ہیں لیکن ان کی اصل شناخت افسانہ ہی ہے ۔
وقار بن الہی: حمید شاہد کا افسانہ ”سورگ میں سور “ جب پہلی مرتبہ رابطہ کے جلسے میں پڑھا گیا تو وہ اتنادلچسپ اور چونکا دینے والا تھا کہ اس پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی ۔ ان کے افسانے اسی مباحث کو چھیڑتے ہیں ۔
انصر علی انصر: حمید شاہد جملے کے معیار کو قائم رکھتے ہیں اور کمزور جملے کو نہ تو اپنے افسانوں میں اور نہ ہی کسی کے دوسرے کے افسانے میں برداشت کر تے ہیں۔
احمد جاوید: حمید شاہد کا کام بہت سمتوں میں ہے لیکن ان کی اصل شناخت افسانہ ہی ہے اور بلاشبہ وہ ایک سنجیدہ افسانہ نگار ہیں ۔ ان کا اسلوب منفرد ہے۔ ”جنم جہنم“ میں جو انہوں نے نظم کی لائنوں میں لکھنے کا تجربہ کیا ہے یا پھر کچھ اور افسانوں میں دوسری تیکنیکس۔ وہ تجربے تو ہوچکے ‘حمید شاہد نے جو اپنا اسلوب بنایا ہے انہیں اسی سے وابستہ رہنا چاہیے ۔جدید افسانے کی تحریک کے بعد نمایاں ہونے والے اپنے ہم عصروں میںوہ اہم تر افسانہ نگار ہیں ۔ جہاں تک افسانوں میں بلندفکری کی بات ہے تو اس کے پیچھے بھاگا نہیں جاتا کہانی اپنی فکر خود بناتی ہے ۔
رفیق سند یلوی: حمید شاہد نے بہت لکھا مگر اس کے باوجود ایک معیار برقرار رکھا ۔ کتابوں پر ان کے تبصرے سینکڑوں میں ہیں ۔ بظاہر ان سب میں معیار کو برقرار رکھنا آسان نہیں ۔حمید شاہد کی کہانیاں نیم دلچسپ ہوتی ہیں تاہم ایک آگہی ان کہانیوں میں ضرور ہوتی ہے ۔ اب وہ اپنا اسلوب اور ڈھنگ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ جہاں تک پنجابی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے کا معاملہ ہے تو اسے میں ہضم نہیں کر سکایہ چیز لسانی سطح پر کس حد تک قابل قبول ہوسکتی ہے اسے دیکھا جانا چاہیے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حمید شاہد کے افسانوں کوآج پورے افسانوی پس منظر میں رکھ کر دیکھا جائے ۔ ان کے دونوں کتابوں کے بعد کے افسانوں کو ان کے فکشن کے سفر میں ایک نئی سیڑھی کہا جاسکتا ہے ۔
پروفیسر جلیل عالی : حمید شاہد کے ہاں کافی لکھنے کے بعد بہت نکھار پیدا ہوا ہے ۔ ان کا اسلوب اپنے موضوع اور ان کا موضوع اسلوب کی تلاش میں ہوتا ہے ۔ زبان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا زخیرہ الفاظ بہت وسیع ہے اور اس کا ثبوت ان کا زیر تحریر ناول ہے جس کے ابواب ہم حلقے کے ان جلسوں میں سن چکے ہیں ۔ یہ ناول تہذیبی اور ثقافتی سطح پر باطنی حقیقتوں کو
پروفیسر اقبال آفاقی : حمید شاہد کے ہاں افسانے کی ٹریٹمنٹ کے حوالے سے متضاد رویے ملتے ہیں تاہم ایک بات واضح ہے کہ ان کے ہاں کہانی کی شناخت موجود ہے۔ حمید شاہد تپسیا کرنے والا فن کار ہے ۔ میری نظر میں حمید شاہد افسانے کی تیسری جنریشن کے سب سے قد آور افسانہ نگار ہیں ۔۔ ان کی شخصیت میں ایک اچھے انسان اور قلم کار کے سارے عناصر موجود ہیں جو انہیں بہت بڑا قلم کار بنانے میں مددگار ہورہے ہیں ۔ تاہم میری خواہش ہے کہ وہ تنقید کے بجائے افسانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔
اختر عثمان : حمید شاہد نے ایک تقریب میں میرے اور اپنے تعلق کو ”لَوّاینڈ ہیٹ“ کا تعلق قرار دیا تھا جب کہ میں اسے واٹر شیڈ جیسا سمجھتا ہوں ۔ ان کے اندر جتنے امکانات بکھرے ہوئے ہیں شاید وہ خود بھی ان سے آگاہ نہیں ہیں ۔مختلف رسالوں اور ادھر ادھر ان کی بکھری ہوئی تحریروں کو پڑھتا ہوں تو جھنجھلاہٹ ہوتی ہے کہ تنقیدمیں وہ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔ ان کے تبصرے زیادہ ہوتے ہیں جن سے کوئی تنقیدی تھیوری سامنے نہیں آتی ۔ تاہم حلقے کے جلسوں میں ان کی تنقید اور تجزیے ایک ذمہ دار اور سوچنے والے تخلیق کار کے طور پر لیے جاسکتے ہیں اور اگر انہیں کسی صورت ‘تنقیدی شکل میں شائع کیا جائے تو ان کی بہت اہمیت ہوگی ۔جہاں تک افسانوں کا تعلق ہے تو ان کے چار افسانے بہت پسند ہیں اور یہ ”برشور“ ” لوتھ“ ” نئی الیکٹرا“ اور ” سورگ میں سور “ ہیں ۔ ان کے افسانے لسانی حوالے سے آگے بڑھتے ہیں۔ ان کے ناول میں زبان کے معاملے میں ڈپٹی نذیر احمد والی دقت پسندی کا رویہ ملتا ہے ۔
ضیاءجالندھری : جہاں تک زیادہ لکھنے اور معیار برقرار رکھنے کا معاملہ ہے تو اس ضمن میں دستو ئیفسکی کی مثال سامنے رکھنی چاہیے ۔وہ زیادہ لکھنے کے باوجود عمدہ تخلیق کار تھا۔ جہاں تک اسلوب کی بات ہے ‘یہ لکھنے والے کے ہاں خود بخود بن جاتا ہے اور ایک دفعہ بن جائے تو بدلتا نہیں ہے ۔ پنجابی لفظوں کے ہضم نہ ہونے کے حوالے سے میں کہو
منشایاد : اگرچہ حمید شاہد کے بہت سے تخلیقی پہلو ہیں لیکن ان کا بنیادی حوالہ فکشن ہے ۔ حمید شاہد نے تنقید لکھی
٭٭٭