Saturday, March 7, 2009

تنقیدی مطالعہ: سورگ میں سور

حلقہ ارباب ذوق‘ راولپنڈی
محمدحمید شاہدکےافسانے سورگ میں سور کاتنقیدی مطالعہ


ڈاکٹر نوازش علی:افسانے میں استعمال کی گئی علامتوں کو ہی کھولنا شروع کروں تو بات بہت طویل ہو جائے گی۔ افسانے کی علامتوں میں سیاست کو معیشت کے ساتھ جوڑ کر عالمی منظر کو بیان کیا گیا ہے۔ افسانے میں زبان بہت خوب صورت ہے۔ اس میں ایک flow ہے اور کہیں بھی ابہام پیدا نہیں ہوتا ۔ اور یہ ایک بار پڑھنے اور سننے والا افسانہ نہیں ہے ۔ ہر بار پڑھنے سے نئی صورت سامنے آتی ہے ۔ اور اس افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی بھی جملہsituation سے باہر نہیں ہے ۔ بہت خوب صورت افسانہ ہے۔
علی محمد فرشی:کہانی کا تخلیقی فریم مقامی ہے۔ افسانے میں استعمال کی گئی علامتوں کو اگر کھولا جائے تو ہمیں در پیش عصری مسائل کی طرف لے جاتی نظر آتی ہیں۔ کہانی کے سورگ سے ہمارے اپنے سورگ تک جو سفر کیا گیا ہے یہ ہمارے عہد کے المیے کی مکمل علامت بن جاتا ہے۔ گلہ بانی کے حوالے سے کہانی نے اپنی اُٹھان پکڑی ہے ۔ گلہ بانی سے زراعت کی طرف سوسائٹی کے move کرنے سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیںافسانے میں انہیں خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ افسانے میں بیان کی گئی کہانی کو اگر گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد کے حالات کے تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو ہمیں اس میں استعمال کی گئی علامتوں کی معنویت کی ایک اور سطح نظر آئے گی۔ افسانے میں حمید شاہد نے مقامی زبان اور وہ الفاظ جو مقامی لحاظ سے terms کے طور پر بولے جاتے ہیں ان کو استعمال کر کے فضا بندی کی ہے ۔ افسانے کی علامتیں مثلاً سور‘ کتے ‘ بکریاں‘ اپنے مواد اور موضوع کے حوالے سے خوب آئی ہیں ۔ اور جہاں تک بات ہے اسلوب کی تو میں سمجھتا ہوں کہ حمید شاہد اپنی کہانی کے حوالے اپنا الگ اسلوب بناتے ہیں۔
رفعت اقبال:اس افسانے میں جو اسلوب بنا ہے اس کے پیچھے ایک روایت موجود ہے ۔ اس کی ایک مثال مستنصر حسین تارڑ کا ”بہاﺅ“ ہے ۔ افسانے میں ہمارے دیہی ماحول کی خوب صورت عکاسی کی گئی ہے۔
جہانگیر عمران:تارڑ نے ”بہاﺅ “میں بہت قدیم الفاظ استعمال کئے جب کہ اس افسانے میں مقامیت کے حوالے سے برتے گئے الفاظ ہمارے اپنی عہد ہی الفاظ کے ہیں تاہم انہیں علامتی سطح دی گئی ہے ۔ یوں یہ افسانہ ایک سطح پر ستر کی دہائی کے افسانے سے جڑ جاتا ہے ۔ افسانے میں استعمال کی گئی علامتیں مقامی اور عالمی سطح پر منطبق ہوتی ہیں ۔
اصغر عابد:حمید شاہد اپنے اسلوب میں الگ اور اپنی لغت کے حوالے سے ایک انفرادی اساس بناتے ہیں۔ وہ مقامی ماحول سے اسلوب کے عناصر لیتے ہیںاور افسانے میں معاشی‘ معاشرتی ‘تہذیبی اور تمدنی حوالے لاتے ہیں۔ کہانی میں ’بابا‘ کا کردار بہت اہم ہے ۔ یہ تھرڈ ورلڈ کی کہانی ہے اور اس میں علامتوں کے ذریعے بین الاقوامی مسائل کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ اس میں اپنے دکھوں اور خوشیوں کا بیان بھی خوب ہے۔
شعیب خالق:حمید شاہد کے اس افسانے میں مجھے بہت ہانٹ کیا ہے۔ علامت کے استعمال اور content کے حوالے سے بہت خوب صورت افسانہ ہے۔ بکریوں کی بیماریاں بہت خوبی سے آئیں مگر سوروں کی بیماری کا ذکر نہیں ہے ۔
اختر عثمان:حمید شاہد کے ہاں علامتوں سے زیادہ دو طرح کے تمثیلی عناصر نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں کہیں بھی علامت چیستاں نہیں بنتی۔ آج کے فنکار کے پیش نظر اپنا ماضی اور حال دونوں ہوتے ہیں۔ اسی طرح حمید شاہد صرف لوک دانش تک نہیں رہ جاتے بلکہ آج کے مسائل کا بھی بھر پور ادراک رکھتے ہیں۔ افسانے میں بوڑھے کا کردار لوک دانش کا کردار ہے جبکہ علامتوں سے آج کے مسائل کی جھلک دکھائی گئی ہے ۔ حمید شاہد کے افسانوں میں مقامی الفاظ کا استعمال بہت خوب ہے ۔ اس افسانے کی ابتدا‘ اصل میں اس فصل کی کاشت سے ہوتی ہے جو سوروں کی مرغوب غذا ہے۔ افسانے کے کردار اسے خود استعماریت تک لاتے ہیں۔ اس کہانی میں خانہ بدوشی سے شروع ہونے والی زندگی دوبارہ خانہ بدوشی کی طرف پلٹتی دکھائی دیتی ہے ۔یہ ایک grand style کا افسانہ ہے۔ جہاں تک گلوبلائزیشن کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ گلوبلائزیشن کوئی شتر گربگی کی علامت نہیں ہے۔ افسانے میں بابا کی فکر ہمیں آگے چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔
عابد سیال :افسانے کی جو خوبیاں یہاں بیان کی گئی ہیں وہ اس افسانے میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ تاہم حمید شاہد نے افسانے کو خوب صورت الفاظ کا مرقع بنادیا ہے ۔
جلیل عالی:بہت خوب صورت افسانہ ہے ۔ اس میں جانوروں کی بیماریوںکے بیان میں تناسب کا قرینہ موجود ہے ۔ جب exactness زیادہ ہوجاتی ہے تو علامت allegory بن جاتی ہے اور یہ ا فسانہ علامتی سطح پرallegory بن گیا ہے ۔
نصر اللہ نصر:افسانے کی مرکزی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کا انحصار معیشت پر ہے۔ افسانے کی جزیات درست اور بر محل ہیں سوروں‘ کتوں اور بکریوں کا علامتی استعمال مغرب اور مشرق کے حوالے سے آیا ہے۔
داود رضوان:علامت نگاری کی کئی قسمیں ہیں ۔ اس افسانے میں تمثیلی علامت نگاری سے کام لیا گیا ہے ۔ یہاں بکری کی علامت مشرق اور معصومیت کی روایت کو سامنے لاتی ہے۔
ڈاکٹر نوازش علی:بھیڑ ‘بکریاں صدیوں سے ہمارے معاشرے کاحصہ ہیں۔ جب کہ سور ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہیں اس لیے ان کا افسانے میں زیادہ بیان نہیں ہوا ہے ۔ کوئی بھی فن کار اپنی مقامیت سے جڑے بغیر آفاقیت تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس افسانے میں حمید شاہد نے اپنی بنیاد سے وابستہ ہونے کی کو شش کی ہے۔ افسانہ نگار کا ایک کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ہمیں دوسری زبانوں سے آگاہ کرے‘ اس افسانے میں حمید شاہد نے یہ کام بھی بطریق احسن کیا ہے۔ اس افسانے کادوسرے افسانہ نگاروں کے افسانوں سے تقابل نہیں کرنا چاہیے۔

( بشکریہ حلقہ ارباب ذوق‘ راولپنڈی: مورخہ ۴۱ اپریل ۲۰۰۲ئ)

٭٭٭