Saturday, March 7, 2009

تنقیدی مطالعہ: سورگ میں سور

تنقیدی مطالعہ:رابطہ‘ اسلام آباد
محمد حمید شاہد کا افسانہ....... سورگ میں سور

ڈاکٹر نوازش علی :”سورگ میں سور میں ساری بات علامتی سطح پر کی گئی تاہم اس کے لیے حمید شاہد نے کہانی کے بیانے کو خوبی سے استعمال کیا ہے ۔اس افسانے کے لیے چکوال کے علاقے کا لینڈ اسکیپ چنا گیا ہے ۔ اس علاقے میں جس طرح مختلف نسلیں آباد رہیں ۔ کاروبار تبدیل ہوتے رہے اسے گرفت میں لیا گیا ہے ۔ یہاں کے بڑوں کا پیشہ بھیڑبکریوں کی پرورش رہا ہے جب کہ نئی نسل اس پیغمبری پیشے سے دور ہوتی دکھائی گئی ہے۔ کاروبار بدلنے سے باہر سے استعماری قوتیں آتی ہیں ‘ساتھ ہی تھوتھنیوں والے بھی آجاتے ہیں۔ گویا جو ہمیں معیشت دے رہے ہیں وہ تھوتھنی والوں کی راہ ہموار کر رہے ہیں اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مقامی استعمار ‘ان کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے ۔ حمید شاہد نے یہ افسانہ انتہائی خوبی سے بنا ہے۔
مسعود مفتی:پہلے اس کا تعین کر لیا جانا چاہیئے کہ افسانہ ”سورگ میں سور“ کس کی علامت ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک پروسس کی علامت ہے ‘ یہ سیاسی علامت بھی ہے ‘ سماجی اور معاشی بھی۔ یہ اس بات کی علامت بھی بنتی ہے کہ پرسکون اور تہذیبی زندگی کو مادی ترجیحات درہم برہم کر رہی ہیں۔ دوسرے اینگل سے دیکھا جائے تو اس میں ایک حقیقت پسند اسلوب بھی سامنے آتا ہے ۔ یہاں ایک ماحول کو مقامی اصطلاحات کے ذریعے بیان کیا گیا ہے ۔ جملوں کی ساخت بہت عمدہ ہے الفاظ کا چناﺅ خوب ہے ۔ افسانہ زمین اور زندگی کے بہت قریب ہے ۔ افسانے میں علامت اور اس کے لیے جو ماحول بنایا گیا ہے میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔
منشایاد:اس افسانے پر تین طرح سے بات ہو سکتی ہے ۔ ماحول جو بنایا گیا ہے ‘ لفظوں کا استعمال ‘ عمدہ زبان اور چیزیں جن کو بیان کیا گیا ہے ۔ تحریر میں بہت flow ہے ۔ بیان بہت خوب صورت ہے اور فکشن کی زبان استعمال کی گئی ہے ۔ ساری صورت حال کو تمثیل بنا کر آخری جملوں میں turn لے کر علامت اور تمثیل کا رنگ دے دیا گیا ہے۔ اس سے سارے معنی سیاسی اور معروضی ہو گئے ہیں۔ یہ بھی کہانی کی دوہری پرت ہے۔ ”سورگ میں سور“ کو ایک تمثیل کے طور پر آج کی صورت حال پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے موضوعات پر ضرور لکھا جانا چاہئے ۔ صرف موضوع ہی نہیں اس کا بیان اور جزئیات بھی بہت اہم ہیں۔
فریدہ حفیظ:عالمی استعمار پر پہلے بھی بہت سے افسانے لکھے گئے ہیںمگر اس کا اسلوب مختلف ہے ۔ اس افسانے کی اٹھان بہت خوب صورت ہے ۔ اس افسانے میں بہت سی پرتیں ہیں اور سب ایک ایک کر کے کھلتی چلی جا تی ہیں۔
مسعود مفتی:”سورگ میں سور“ کے حوالے سے کہوں گا کہ اس جنت کو تباہ سوروں نے نہیں کیا بلکہ اُن لوگوں کے رویوں نے کیا ہے جن کی وجہ سے مادی ترغیبات نے رحمدلی کے جذبے کو معدوم کر دیا ہے ۔
آفتاب اقبال شمیم:”سورگ میں سور“ افسانے کی نثر میں ایک میوزیکل ٹچ ہے خود عنوان ملاحظہ ہو ”سورگ“ اور ”سور“ ۔ حمید شاہد نے ا فسانہ پڑھنا شروع کیا تو یوں لگا وہ پوئیٹری پڑھ رہے ہیں ۔ جیسے انہوں نے جانوروں کے بارے میں لکھا ہے تو اسے تہذیبی حوالے سے دیکھیں۔ ایک pastoral age ہے جو آگے بڑھ کر agricultural امیجری میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ آگے جاکر سوروں کے ذکر سے افسانہ معنوی سطح پر بہت پھیلا دیا گیا ہے۔ اب جہاں کہیں بھی استحصال ہورہا ہے یہ ا فسانہ وہا ں apply ہو جاتا ہے۔
محمود اختر:اس افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں افسانہ نگار کا مشاہدہ بہت deep ہے۔ بکریوں کے بارے میں ‘ بکریوں کی نسلوں کے بارے میں‘ کتوں کے حوالے سے ۔ جانوروں کی بیماریوں کا ذکر ۔ مشاہدہ کمال کا ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ ایک آدمی اتنا قادر ہو کہ دریا کی روانی سے سب کا ذکر کرتا چلا جائے۔
ضیا ءجالندھری:قابیل کے ہاتھوں سے ہابیل کا قتل ہوا تھا۔ ہابیل تہذیب کے اولین حصے سے تعلق رکھتا تھا جب کہ قابیل ایڈوانس تھا ۔ وہ سبزیاں اگانے تک آگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی ۔ ”سورگ میں سور “کا کمال یہ ہے کہ کہ اس میں ایک مقام پر آکر لوگوں کی ہڈیوں میں پانی پڑ گیا ہے۔ جس نے fibring سپرٹ کوkillکر دیا ہے۔ ٹالسٹائی اور داستوئفسکی کے لیے مشہور تھا کہ وہ جس چیز کو پکڑ لیتے تھے تفصیلات تک اور باریکیوں تک لے جاتے تھے۔ اس افسانے میں جس طرح زبان کا استعمال ہوا ہے اور جس طرح جزیات تک آئی ہیں‘ وہاں ہم خود موجود ہو جاتے ہیں ۔ مجھے ابوالفضل صدیقی یاد آگئے۔ اتنا پرسنل اور کلوز مشاہدہ ہے ۔ ان سب باتوں نے مل ملا کر اسے خوب صورت افسانہ بنا دیا ہے۔ بہت کا میاب اور دل آویز افسانہ ہے۔
( بشکریہ رابطہ‘ اسلام آباد : مورخہ ۸۱۔ اپریل ۲۰۰۲ ئ)